بین مذہبی شادیوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں

   

رام پنیانی
شاردھا والکر کے خلاف وحشیانہ و ہولناک تشدد کے واقعہ نے ہماری ہندوستانی قوم کو دہلاکر رکھ دیا۔ یہ یقینا بھیانک اور قابل نفرت جرم ہے۔ اس طرح کے ہولناک اور وحشیانہ واقعات ماضی میں بھی پیش آچکے ہیں اور شاید ان واقعات کو ہم یادوں سے مٹا بھی نہ پائیں۔ مثال کے طور پر نربھئے (جیوتی سنگھ) کی اجتماعی عصمت ریزی اور پھر اس کے ساتھ کی گئی درندگی، تندور کیس اور حال ہی میں ابھیجیت پٹی دار واقعہ، اس واقعہ میں ابھیجیت نے جبل پور کے ایک تفریحی مقام پر شلیا کا گلا کاٹ دیا تھا اور دل کو دہلا دینے والے اس منظر کی ویڈیوگرافی بھی کی تھی۔ حالیہ عرصہ کے دوران راہول نامی مجرم نے گلشنا کو بہیمانہ انداز میں قتل کردیا تھا تب یکساں حقوق کے نعرے فضاء میں گونجتے رہے۔ شاردھا والکر کیس میں چونکہ مجرم آفتاب ہے، اس لئے اس کیس کو کچھ عناصر ’’لو جہاد‘‘ قرار دے کر مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں لڑکیوں کی اپنے والدین اور سرپرستوں کی مرضی و منشاء کے خلاف پیار و محبت، عاشقی، لیو اِن ریلیشن، بین مذہبی شادیوں و ناجائز تعلقات کے بے شمار واقعات پیش آرہے ہیں۔ جب کسی خاندان کی لڑکی اپنے والدین و سرپرستوں یا رشتہ داروں کی مرضی کے خلاف دوسرے مذاہب کے ماننے والے لڑکوں سے شادیاں کرتی ہیں، پیار و محبت کرتی ہیں، بناء شادی کے ایک ساتھ ایک ہی چھت تلے رہتی ہیں، نتیجہ میں والدین یا سرپرست اور قریبی رشتہ دار ان سے اپنا رشتہ منقطع کرلیتے ہیں اور پدرانہ برتری کی فضاء میں وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہتی اور اس طرح کے تعلقات میں بعض مرد سراسر غلط قدم اُٹھاتے ہیں جو قابل مذمت تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہورہا ہے۔
ممتاز جہدکار کویتا کرشنن کے مطابق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ایک کمیونٹی یا برادری سے تعلق رکھنے والے مرد دوسری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں یا خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ اپناتے ہیں اور ان سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلہ کو دوسرے غیرضروری مسائل میں الجھاکر نت نئے مسئلے پیدا کئے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہندی زبان میں کئے گئے دو ٹوئٹس ہماری نظروں سے گذرے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کس قسم کا غلط پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ حقیقت پر پردہ ڈال کر حقیقت سے بعید چیزیں دکھائی جارہی ہیں۔ پہلا ٹوئٹ بی جے پی کے کپل مشرا نے کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ اور میڈیا اشتہارات میں بھائی چارہ اور بیٹوں کی خون میں لت پتہ سیاست سے متعلق فرضی بیانات و خبروں کو فروغ دیتے ہیں جبکہ دولت مند اور متوسط طبقات فرضی سکیولرازم کا زہر پی رہے ہیں۔ بکی ہوئی پولیس اور تعلیم کے جہادی ماڈل کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ ایسے میں شاردھا جیسے قتل کے واقعات کیلئے بیٹیوں کو ذمہ دار قرار نہ دیں۔ دوسرا ٹوئٹ تپن داس نے کچھ یوں کیا : ’’سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو کنٹرول میں نہیں رکھتے، انہیں اس بات کی کھلی آزادی دی جاتی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں یعنی ہم انہیں ایسے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جو چاہے وہ کرنے کیلئے آزاد ہیں۔ اگر والدین اور بھائی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھیں تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ کوئی کسی کے دام اُلفت میں گرفتار ہوگی۔ ان ٹوئٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں مردوں کی (پدرانہ) اجارہ داری پائی جاتی ہے۔ کم از کم مذکورہ ٹوئٹس سے تو یہی پتہ چلتا ہے راقم نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ وائرل ہونے والی چند ایک مثالیں پیش کی ہیں۔ اس طرح کی وائرل ٹوئٹس خبروں اور ویڈیوز کے ذریعہ معاشرہ میں نہ صرف نفرت پیدا کی جارہی ہے بلکہ اس میں شدت پیدا کرنے کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ساتھ ہی اس رجحان کے ذریعہ خواتین کے خلاف تشدد خاص طور پر بین مذہبی و بین ذات پات شادیاں کرنے والی خواتین پر تشدد کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اپنے مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ جہاں تک ’’لو جہاد‘‘ کا سوال ہے، یہ اصطلاح تبدیلی مذہب کی مبینہ سازش کی طرف بڑی مکاری کے ساتھ کیا گیا ایک اشارہ ہے۔ اب ’’ہندو لڑکیوں کے تحفظ‘‘ کیلئے نئے قوانین بنانے کے وعدے کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے عدالت عظمی کے ججس بھی حکومت کو تبدیلی مذہب کے واقعات روکنے کچھ کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح کو چند سال قبل کیرالا سے فروغ دینا شروع کیا گیا اور یہ پروپگنڈہ کیا گیاکہ لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرواکر انہیں مسلم بنانے کے مقصد سے لو جہاد شروع کی گئی ہے۔ اس کے لئے غیرمسلم لڑکیوں کو Sex Slave کے طور پر استعمال کرنے اور پھر انہیں شام، افغانستان جیسے ملکوں کو روانہ کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہادیہ، عقیلہ، ارونن کے واقعات کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا لیکن ان تمام واقعات میں یہ واضح ہوگیا کہ پروپگنڈہ بالکل غلط تھا۔ ھادیہ اپنے بوائے فرینڈ کو پسند کرنے اور تبدیلی مذہب سے متعلق موقف پر سختی سے ڈٹی رہی اور اپنا مقدمہ سپریم کورٹ تک لے کر گئی سپریم کورٹ نے ریاستی حکام کے الزامات کو بالکل غلط بتاتے ہوئے مسترد کردیا اور سپریم کورٹ نے دوسرے مذہب کے لڑکے سے شادی کے حق کو برقرار رکھ کر ایک اچھی مثال قائم کی۔