دنیا کو پھر کربلا کے پرعزم انقلاب کی ضرورت ہے

   

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، خانوادۂ نبوت پر ڈھائے گئے ظلم وستم سے دل کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اپنے خانوادہ اور جاں نثاروں کے ساتھ شہادت باطل کے خلاف تاقیامت یاد رکھے جانے والی عظیم قربانی ہے ۔ جب کبھی حق و باطل کامعرکہ ہوگا باطل چاہے جس قدر طاقت و قوت ، جدید آلات حرب سے آراستہ ہو کربلا کا انقلاب ، حق و صداقت سے لبیز امام عالی مقام اور آپ کے جاں نثاروں کا پرعزم اقدام ، دنیا کے حق پسند مظلوموں کے لئے ایک مہمیز و محرک ثابت ہوگا ۔ راہِ حق میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کے خون کا اثر بظاہر فی الفور نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ خون قحط زدہ ، خشک زمین پر بارش کے قطرات کے مانند ہوتا ہے جو زمین کی تہہ میں پوشیدہ ہوکر مختصر سے وقفہ میں سرسبز و شادابی اور لہلہاتی کھیتیوں کی شکل میں اپنا اثر ظاہر کرتی ہے ۔
ساڑھے چودہ سو سال پر محیط اسلامی تاریخ قیامت خیز آفات و مصائب ، جنگ و جدال ، فتنوں اور آزمائشوں سے لبریز ہے ۔ ان میں ہولناک وہ فتنہ تھا جس کے سبب حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ وہی فتنہ انتشار ملت کا باعث بنا اسی سے متعدد فتنوں کے لامتناہی سلسلہ کا آغاز ہوا ۔ وہ خلیفہ وقت جن کی عہد خلافت میں کئی ایک عجمی ممالک فتح ہوئے سلطنت اسلامیہ کو استحکام اور وسعت دونوں نصیب ہوئیں عظیم الشان سلطنت کے اس خلیفہ کو دارالخلافہ میں انہی کے گھر میں محصور کردیا گیا جبکہ اس وقت عشرہ مبشرہ میں سے جلیل القدر صحابہ ، بدری صحابہ اور مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت موجود تھی ، خلیفہ وقت کو خوراک و پانی سے محروم کیا گیا بالآخر انہی کے گھر میں ان کو شہید کردیا گیا ۔ یہ فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہ تھا گرچہ اسلامی سلطنت کے استحکام میں اس معنی میں کمزوری نہیں آئی کہ دشمنان اسلام اسلامی حکومت پر حملہ کی جرأت کرسکیں لیکن باغیوں کا اس قدر غلبہ پاجانا کہ خلیفہ وقت کو انہی کے گھر میں محصور کرکے شہید کردینا بعد ازاں قصاص و قتل کے خوف کے بغیر بے محابا دارالخلافہ میں گھومنا صحابہ کرام کی صفوں میں شکوک و شبھات کا باعث بنا ، وہی عثمان غنیؓ جن کی شہادت کی محض خبر پر حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم اور صحابہ کرام نے قصاص لینے کے لئے بیعت کی تھی انہی عثمان غنیؓ کی مظلومانہ شہادت پر قاتلین سے قصاص لینے میں تاخیر کی بناء شکوک و شبہات اور فتنوں کو فروغ پانے کا موقعہ ملا بالآخر جنگ جمل اور جنگ صفین کی شکل میں مسلمانوں کے دو فریق متصادم ہوئے اور دونوں طرف سے متعدد صحابہ شہید ہوئے۔
ان نازک اور آزمائشی حالات میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا وجود گرامی اُمت اسلامیہ کے حق میں ایک عظیم نعمت تھا ، آپؓ نے نہایت پامردی اور عزیمت و استقامت سے اُمت کی رہنمائی فرمائی جبکہ بعض اجلۂ صحابہ حتی کہ اُم المؤمنین رضی اﷲ تعالیٰ عنھم آپ ؓ کی مخالف صف میں تھے ۔ اس وقت حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا اقدام اُمت کے حق میں غیبی مدد تھا اور تمام اہلسنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا موقف حق و صداقت پر مبنی تھا اور آپؓ کے خلاف میں کھڑے ہونے والے صحابہ سے بعض شکوک و شبھات کی بناء خطاء اجتھادی ہوئی تاہم دونوں فریق کی خلوص نیت میں کلام کرنا گمراہی و ضلالت ہے اور اہلسنت والجماعت کے طریقہ کے سراسر خلاف ہے ۔
اُس وقت خارجی ذہنیت کے بڑھتے ہوئے اثرات خلافت اسلامیہ کے لئے سنگین مشکلات کا سبب بن رہے تھے ، سابقہ حالات وجوہات کی بناء فی الفور ان پر قابو پانا مشکل اور حکمت کے خلاف تھا تو ان کی سرکوبی نہ کرنا خلافت اسلامیہ کے لئے خطرہ کا سبب تھا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آزاد حکومت اور خودمختاری کا اعلان کردیا ۔ خلیفہ برحق حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے خارجیوں سے جنگ کی ، ہزاروں خارجی ہلاک ہوئے ان کا زور ٹوٹا لیکن وہ بالکلیہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اپنی سازش رچتے رہے ۔ انہی کی منصوبہ بند سازش کے نتیجے میں خلیفہ برحق حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت ہوئی ۔
چار ساڑھے چار سال کے مختصر وقفے میں اسلام کے دو عظیم خلفاء کی سازش کے نتیجے میں شہادت دینی و سیاسی نقطہ نظر سے ایک سنگین و پرخطر مسئلہ تھا ۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے بعد امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عامۃ المسلمین کے اجتماعی فیصلہ سے خلیفہ مقرر ہوئے ۔ چھ ماہ بعد امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت امیرمعاویہ ؓ کے حق میں بذریعہ مصالحت دستبردار ہوئے ۔ واضح رہے کہ یہ مصالحت قطاً کمزوری کی بناء پر نہیں تھی بلکہ حق اور قوت دونوں حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے ۔ تاہم آپؓ فطری طورپر قتل و خون کو پسند نہیں فرماتے اور آپؓ حکمرانی کے کبھی خواہشمند نہ تھے ۔ حق ، عددی قوت اور ظاہری غلبہ کے باوجود آپ نے مصالحت کو ترجیح دیکر عزیمت و اخلاص کی عظیم مثال قائم کی ۔ اس قربانی پر ہزاروں حکمرانیاں قربان ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اجلۂ صحابہ اور کاتبان وحی میں سے ہیں، ان کی عہد گورنری اور امارات میں اسلام کو قوت ملی ۔ ان کی سیاسی بصیرت اور حسن انتظام کا سبھی کو اعتراف ہے ۔ ان کی عہد امارات میں مسلم و غیرمسلم رعایا خوش و خرم رہی اور اسلامی سلطنت کافی وسیع ہوئی اور سازش و فتنہ انگیزی دب کر رہ گئی ۔
۶۰؁ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی ۔ آپ نے ۵۱؁ ھ ہی میں جبکہ آپ صحتمند تھے یزید کی ولی عہدی کا علی الاعلان اظہار کیا اور بلاد اسلامیہ میں بیعت لی گئی ۔ بعض صحابہؓ نے بیعت نہیں کی اور سخت احتجاج کیا اور اس کو قیصر و کسریٰ کا طریقہ قرار دیا ۔
یزید کی جانشینی بادشاہی طرز و روش کے مطابق تھی جوکہ اسلام کے نظامِ خلافت کے مغائر و منافی تھی ، یزید کافسحق و فجور ، خبث نفس اور بے راہ روی کسی سے مخفی نہیں ، اس کی حمایت حقائق سے چشم پوشی اور تعزیری سزا کی موجب ہے ۔ اگر امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بدبخت یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تو دنیا کی دولت آپؓ کے قدموں میں ہوتی لیکن آپؓ نے اسلامی کاز اور اسلام کے نظامِ حکمرانی کی بحالی کے لئے خانوادۂ نبوت کے ہمراہ اپنی جان عزیز کو قربان کردیا اور قیامت تک کے لئے اسلامی نظام حکومت کے تصور کو زندہ کردیا اور تاابد حق پر قائم رہنے اور باطل کے آگے نہ جھکنے کی عظیم مثال قائم کی اور بلالحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت کو جادۂ حق و انصاف پر قائم رہنے اور ظلم و زیادتی سے نبرد آزما ہونے کا پیغام دیا۔
آج ساری دنیا میں حکومتی سطح پر ، قانونی دائرے میں ظلم و زیادتی ، قتل و غارت گری ناانصافی اور سفاکی کا ماحول ہے ، ہر طرف جنگ و جدال کا خون سوار ہے پھر دنیا کو کربلا کے پرجوش و پرعزم انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں امن و امان ، پیار و محبت اور عدل و انصاف کا پھریرہ عام ہو۔