غلام یزدانی

   

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآباد میں خدمات انجام دیتے ہوئے جن باکمالوں نے درجہ کمال کی بھی انتہائی کو سر کیا اور نہ صرف سارے ہندوستان میں بلکہ ساری دنیا میں اپنا اور حیدرآباد کا نام روشن اور بلند کیا ان میں غلام یزدانی اپنی طرز کی منفرد شخصیت تھے جن کے کارناموں کی وسعت اور جن کی قابلیت اور صلاحیت کی ہمہ گیری لائق صد رشک اور مثالی تھی ۔
ریاست حیدرآباد میں محکمہ آثار قدیم 1913 ء میں قائم ہوا ۔ اس کے قیام کے ساتھ ہی اس کے لئے ایک ایسے سربراہ کے تقرر کی ضرورت محسوس ہوئی جو اس کی تنظیم بہتر انداز میں کرسکے ، قدیم آثار کی مرمت اور نگہداشت جدید سائنسی طریقوں سے انجام دلواسکے اور وہ اہم ، ضروری اور مفید کام کرواسکے جو اس محکمہ کی جانب سے انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ اس کیلئے مولوی غلام یزدانی کا انتخاب عمل میں آیا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، بے حد قابل اور آثار قدیمہ کے ماہر تھے ۔انہوں نے اپنے انتخاب کو صد فیصد صحیح ثابت کیا ۔ اس محکمہ میں غلام یزدانی کی کارکردگی اتنی عمدہ اور اعلیٰ درجے کی رہی کہ انہیں نہ صرف ہندوستان گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد کے محکمہ آثار قدیمہ کو اس درجہ ترقی دی کہ اس محکمہ کو دنیا کے ترقی یافتہ اور متمدن ملکوں کے آثار قدیمہ کے محکموں کے معیار کے مساوی سمجھا جانے لگا ۔ حکومت برطانوی ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل سرجان مارشل مولوی غلام یزدانی کی نگرانی میں حیدرآباد کے محکمہ آثار قدیمہ کے حسن انتظام ، عمدہ کارکردگی اور قدیم آثار کی موثر نگرانی اور مرمت کو بہت اچھے الفاظ میں سراہا کرتے تھے۔
غلام یزدانی دہلی کے ایک معزز متوسط طبقے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد منشی غلام جیلانی نیک و پاکیزہ زندگی بسر کرنے اور السنہ مشرقیہ پر عبور رکھنے کی وجہ سے دہلی میں ایک محترم شحصیت سمجھے جاتے تھے ۔ وہ ہندوستان میں خدمت انجام دینے والے برطانوی سیول سرویس عہدیداروں کو فارسی اور اردو پڑھایا کرتے تھے ۔ وہ ریاست دوجانہ Dojana کے دیوان بھی رہے ۔ حکیم اجمل خاں ان کے عزیز دوست تھے ۔
غلام یزدنی 1885 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلیمی کیریئر شاندار رہا ۔ انہوں نے میٹرک کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفہ منظور کیا گیا ۔ انہوں نے کالج کی تعلیم ما ہر اساتدہ اور ممتاز ماہرین تعلیم کی نگرانی میں حاصل کی ۔ اس زمانے کے مشرقی السنہ کے نامور ماہرین مولوی محمد اسحاق اور مولوی نذیر احمد نے انہیں توصیفی صداقت ناموں سے نوازا۔ انہیں 1903 ء میں انٹرمیڈیٹ میں یونیورسٹی میں پہلا مقام حاصل ہوا اور 1905 ء میں انہیں بی اے میں وہی موقف حاصل ہوا اور تین گولڈ میڈل ملے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے خانگی امیدوار کے طور پر فارسی سے ایم اے کیا اور اسی یونیورسٹی سے 1913 ء میں انہیں تاریخ ہند میں اوریجنل ریسرچ پر گریفیتھ (Griffith) انعام دیا گیا۔

غلام یزدانی کو نومبر 1905 ء میں عربی اور فارسی میں تحقیق کے لئے حکومت ہند کے آثار قدیمہ کا وظیفہ منظور کیا گیا ۔ انہوں نے پہلے مسٹر ڈینی سن راس اور بعد ازاں ڈاکٹر ہارو وٹز کے ساتھ کام کیا ۔ وہ 1915 ء میں موخرالذکر کی جگہ حکومت ہند کے عربی اور فارسی کتبات کے ایپی گرافسٹ (کتبہ نویس) مقرر ہوئے اور 1941 ء تک اس عہدہ پر مامور رہے ۔
غلام یزدانی 1907 ء میں سینٹ اسٹیفنس کالج دہلی میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور 1909 ء میں انہیں سر ہنری شارپ نے گورنمنٹ کالج راج شاہی میں عربی کا پروفیسر مقرر کیا ۔ غلام یزدانی 1909 ء سے 1913 ء تک کلکتہ میں رہے ۔ حکومت پنجاب نے 1913 ء میں حکومت بنگال سے ان کی خدمات مستعار لیں اور انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی کا پروفیسر مقرر کیا گیا ۔ وہ یہاں صرف چند ماہ ہی کام کرسکے کیونکہ ریاست حیدرآباد میں نئے قائم کردہ محکمہ آثار قدیمہ کی تنظیم کیلئے 1914 ء میں ان کی خدمات مستعار لی گئیں جہاں وہ محکمہ آثار قدیمہ کے پہلے ناظم مقرر کئے گئے اور وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے تک اسی عہدہ پر فائز رہے ۔
مولوی غلام یزدانی کے ریاست حیدرآباد میں تقرر ، ملازمت میں توسیع ، بعد ازاں استقلال ، تنخواہ میں اضافے اور ان کی جانب سے یا ان کے لئے پیش کردہ تحریکات کے منظور کئے جانے کی تفصیلات آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کی تلاش ، جائزے اور ریسرچ کے بعد ذیل میں درج کی جارہی ہے جن سے مولوی غلام یزدانی کی عمدہ کارگزاری اور حکومت کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کے واضح اشارے ملتے ہیں۔
ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع کے ابتدائی دور حکمرانی میں محکمہ آثار قدیمہ کا قیام عمل میں آیا ۔ اس محکمہ کے قیام کیلئے آصف سابع کا فرمان 28 شوال 1331 ھ م 30 ستمبر 1913 ء کو جاری ہوا تھا ۔ اس محکمہ کے عہدہ نظامت کے لئے مولوی غلام یزدانی کی خدمات حکومت برطانوی ہند سے تین سال کے لئے مستعار لی گئیں ۔ وہ یکم اپریل 1914 ء کو اس خدمت پر رجوع ہوئے ۔ غلام یزدانی ریاست حیدرآباد کے محکمہ آثار قدیمہ کے ناظم کی خدمت پر جب برسرکار تھے ، حکومت برطانوی ہند کے ڈائرکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ کی تحریک پر حکومت ہند نے غلام یزدانی کو ایک سو روپئے ماہانہ الاؤنس کے ساتھ عربی و فارسی کتبوں کے پڑھنے کی خدمت پر اپنی گرافسٹ ٹو دی گورنمنٹ آف انڈیا ، نامزد و منتخب کیا اور اس کے لئے حکومت ریاست حیدرآباد سے اجازت طلب کی گئی ۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 9 شعبان 1333 ھ م 23 جون 1915 ء کے ذریعہ حکم دیا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایپی گرافسٹ کی خدمت پر غلام یزدانی کا انتخاب ہونے سے ان کے مفوضہ سرکاری کام میں کوئی ہرج واقع ہونے کا احتمال نہیں ہے اور مصارف کا بار بھی ہماری حکومت پر عائد نہیں ہوتا ہے اس لئے گورنمنٹ آف انڈیا کی درخواست منظور کرلی جائے۔

مولوی غلام یزدانی کی خدمات ریاست حیدرآباد میں تین سال کیلئے مستعار لی گئی تھیں۔ اس لئے اس مدت کے ختم ہونے سے چند ماہ قبل ایک عرضداشت آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں وزیر فینانس نے لکھا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے جو عمدہ کام انجام دیئے ہیں اور قدیم آثار کے تحفظ کیلئے جو کوششیں کی گئی ہیں وہ بہت قابل تعریف ہیں۔ درحقیقت یہ کامیابیاں مولوی غلام یزدانی کی توجہ اور دلچسپی کا نتیجہ ہیں۔ لہذا ان کی خدمات مزید تین سال کیلئے حاصل کی جائیں۔ آصف سابع نے وزیر فینانس کی سفارش پر بذریعہ فرمان مورخہ 24 ربیع الاول 1335 ھ م 19 جنوری 1917 ء مولوی غلام یزدانی کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع منظور کی ۔ بعد ازاں ان کی عمدہ کارگزاری کے پیش نظر آصف سابع نے فرمان مورخہ 5 صفر 1338 ھ م 30 اکتوبر 1919 ء کے ذریعہ ان کی مدت ملازمت میں مزید دو سال کی توسیع دی ۔

محکمہ آثار قدیمہ کے ناظم کی حیثیت سے سات سال کی مدت مکمل ہونے پر غلام یزدانی کی ملازمت کو مستقل کردینے کیلئے ایک عرضداشت آصف سابع کی خدمت میں بھیجی گئی جس میں متعلقہ معتمد کی یہ رائے درج کی گئی کہ موجودہ خدمت (ناظم آثار قدیمہ) کے واسطے موزوں ہونے کیلئے غلام یزدانی کی صلاحیتوں کا مجموعہ نادر الوجود ہے ۔ مثلاً وہ اعلیٰ درجے کے محقق ہیں ، علم آلاثار کے کامل ماہر ہیں، لائق مصنف ہیں اوران میں انتظامی قابلیت نہایت عمدہ ہے ۔ اگر غلام یزدانی یہاں سے چلے جائیں تو ایک ایسا ناظم کا جو عہد اسلامی اور عہد قدیم کے علم آلاثار میں یکساں طور پر ماہر ہو ملنا دشوار ہوگا ۔ باب حکومت (کابینہ) نے سفارش کی کہ غلام یزدانی کو ان کی مسلمہ قابلیت ، موزونیت اور محکمہ آثار قدیمہ کی ضرورت کے لحاظ سے ریاست حیدرآباد میں مستقل طور پر منتقل کرلینا مناسب ہے۔ اس عرضداشت کی سفارشات کی بنیاد پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 29 شعبان 1339ھ م 8 مئی 1921 ء مولوی غلام یزدانی کو ناظم آثار قدیمہ کی خدمت پر مستقل کرنے کی منظوری دی۔
ابتداء میں غلام یزدانی کا تقرر ناظم محکمہ آثار قدیمہ کی خدمت پر چار سو روپئے کلدار ماہانہ پر عمل میں آیا تھا لیکن بعد ازاں ذریعہ فرمان مورخہ 10 ربیع الثانی 1334 ھ م 15 فروری 1916 ء ان کی تنخواہ پانچ سو تا چھ سو روپئے کلدارکے گریڈ میں بہ اضافہ پچاس روپئے کلدار سالانہ معہ پچھتر روپئے سکہ عثمانیہ ماہانہ برائے کرایہ مکان مقرر ہوئی ۔ تقریباً ساڑھے تین سال بعد آصف سابع کے فرمان مورخہ 5 صفر 1338 ھ م 30 اکتوبر 1919 ء کے ذریعہ انہیں پانچ سو تا آٹھ سو روپئے کلدار با اضافہ پچاس روپئے کلدار سالانہ کا گریڈ دیا گیا اور ان کی تنخواہ آٹھ سو روپئے کلدار مقرر ہوئی ۔ کرایہ مکان پچھتر روپئے ماہانہ سے بڑھاکر ایک سو روپئے سکہ عثمانیہ کردیا گیا ۔
آصف سابع کے جس فرمان کے ذریعہ مولوی غلام یزدانی کی ملازمت کو مستقل کرنے کی منظوری دی گئی تھی (جس کا اوپر ذکر آچکا ہے) اسی فرمان میں یہ احکام بھی دیئے گئے تھے کہ غلام یزدانی کی کامل مدت ملازمت با اغراض وظیفہ و رخصت محسوب کر کے سابقہ فرمان کے مطابق ان کو آٹھ سو روپئے کلدار ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہے، یہاں تک کہ ان کو اس خدمت کی انتہائی تنخواہ بارہ سو روپئے کلدار ماہانہ مل جائے ۔ ان احکام کی تعمیل کی گئی ہے ۔ جب مولوی غلام یزدانی گریڈ کی انتہائی یافت بارہ سو روپئے کلدار ماہانہ پارہے تھے ، انہوں نے تنخواہ میں تین سو روپئے کلدار کا اضافہ کرنے کے لئے در خواست پیش کی جس پر باب حکومت نے انہیں دو سو روپئے کلدار ماہانہ پرسنل الاؤنس دینے کی سفارش کی جس پر آصف سابع نے بذریعہ فرمان مور خہ 10 جمادی الاول 1351 ھ م 12 ستمبر 1932 ء مولوی غلام یز دانی کو دو سو روپئے کلدار ماہا نہ پرسنل الاؤنس دینے کی منظوری دی ۔

مولوی غلام یزدانی نے حکومت کے نام ایک درخواست کے ذریعہ اوائل اپریل 1922 ء سے دو سال کے لئے بیرونی ممالک کے دورہ پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ انہوں نے درخواست میں لکھا کہ وہ یہ مدت حرمین شریفین کی زیارت کے علاوہ انگلستان اور اسلامی ممالک اسپین ، فلسطین اور مصر کی قدیم عمارتوں کے معائنے میں صرف کریں گے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس دورہ کا اصل مقصد بیرونی ممالک میں قدیم آثار کی تحقیق و تفتیش ، نگرانی ، مرمت اور تحفظ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ان ممالک کے ماہرین سے تبادلہ خیال کرنا ہے ۔ ان کی درخواست پر متعلقہ معتمد نے رائے دی کہ مولوی غلام یزدانی کا یہ دورہ بے حد فائدہ مند رہے گا اور صدراعظم نے اس دورہ کی اجازت اور منظوری دینے کی سفارش کی ۔ چنانچہ آصف سابع نے فرمان مورخہ 8 مارچ 1922 ء کے ذریعہ مولوی غلام یزدانی کو سالم تنخواہ اور کرایہ آمد و رفت کے ساتھ انگلستان اور اسلامی ممالک کا دو سال کے لئے دورہ کرنے کی منظوری دی۔

محکمہ آثار قدیمہ کے قیام کے تقریباً سترہ برس بعد مولوی غلام یزدانی نے حکومت کے نام ایک درخواست میں لکھا کہ بیدر ، گلبرگہ اور گولکنڈہ کے آثار پر ایسی کتابیں مدون کرنے کی ضرورت ہے جن میں دکن کے اسلامی فن تعمیر کی ابتداء اور عروج کے بارے میں مستند مواد یکجا ہوجائے ۔ اس کام کیلئے اگرچہ مواد جمع ہوچکا ہے لیکن ترتیب اور تدوین کیلئے وقت کی ضرورت ہے ۔ اگر انہیں موجودہ فرائض سے جو دفتری خط و کتابت ، آثار کے تحفظ ، نگرانی اور موقتی رپورٹوں کی تدوین پر مشتمل ہیں سبکدوش کردیا جائے تو وہ یہ کام کرسکتے ہیں ۔ اس وقت محکمہ میں ایسے قابل افراد موجود ہیں جو محکمہ کی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ مجوزہ کتابوں کی تدوین کے علاوہ اجنتا کی تین جلدوں کی تدوین بھی ابھی باقی ہے ۔ اگرانہیں پانچ سال کیلئے اسپیشل ڈیوٹی پر مقرر کیا جا ئے تو اجنتا کی بقیہ تین جلدوں کے علاوہ بیدر ، گلبرگہ اور گولکنڈہ پر مستقل کتابیں مدون اور شائع ہوجائیں گی اور محکمہ سے ایسا کام انجام پائے گا جسے شائقین فن ضرور پسند کریں گے ۔ غلام یزدانی کی اس تحریک کو متعلقہ اعلیٰ عہدیداروں نے نہا یت اہم اور ضروری اور باب حکومت نے لائق منظوری قرار دیا ۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 17 صفر 1351 ھ م 22 جون 1932 ء کے ذریعہ اس تحریک کو منظور ی دی ۔

ڈائرکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ حکومت ہند سرجان مارشل ’’کتاب آثار قدیمہ ہند‘‘ کی تالیف میں مولوی غلام یزدانی کو اپنا شریک کار بنانا چاہتے تھے ۔ چنانچہ اس بارے میں حکومت ہند کی جانب سے ایک تحریک حکومت ریاست حیدرآباد کو روانہ کی گئی ۔ اس تحریک کے سلسلے میں ایک عرضداشت آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 15 ذی قعدہ 1359 ھ م 15 ڈسمبر 1940 ء کے ذریعہ احکام دیئے کہ نظامت آثار قدیم کی عام نگرانی مولوی غلام یزدانی کے سپرد کر کے دفتری کام ان کے دو مددگاروں کے تفویض کیا جائے ۔ غلام یزدانی اپنی موجودہ تنخواہ اور الاؤنس کے ساتھ اپنی مدت ملازمت کے اختتام تک تدوین کا کام کرتے رہیں اور وظیفے پر علحدگی کے بعد اس تدوین کے کام کے صلے میں انہیں مستحقہ وظیفے کے علاوہ پانچ سو روپئے ماہانہ الاؤنس تین سال تک دیا جائے۔ آرکائیوز کے ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر متذکرہ بالا تفصیلات کے بعد مولوی غلام یزدانی کی چند اہم تصانیف ، ملک کے اہم تحقیقی اداروں سے ان کی وابستگی اور انہیں دیئے گئے اعزازات کا مختصر بیان بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
.1 غار ہائے اجنتا کی تصویروں کی مرمت اور تحفظ میں مولوی غلام یزدانی نے غیر معمولی دلچسپی لی اور بعد ازاں ان کی مرتب کردہ کتاب ’’اجنتا‘‘ کی تین جلدوں میں اشاعت عمل میں آئی ۔ ہر جلد کا پہلا حصہ تصویروں اور دوسرا حصہ وضاحتی متن (انگریز ی) پر مشتمل ہے۔ اس وضاحتی متن کی تیاری میں انہوں نے سخت محنت کی اور تحقیق کا حق ادا کیا ۔ ان کے اس کام کو دنیا کے علمی حلقوں میں بے حد سراہا گیا اور اسے عظیم الشان علمی کارنامہ قرار دیا گیا ۔ اس بارے میں آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کی بنیاد پر قلم بند کئے گئے دو مضامین ’’غارہائے اجنتا کی تصاویر کی دوستی اور حفاظت‘‘ اور ’’اجنتا کی تصاویر پر کتاب کی اشاعت ‘‘ راقم الحروف کی کتابوں ’’حاصل تحقیق اور گزشتہ حیدرآباد ۔ آرکائیوز کے آئینے میں میں شامل ہیں۔
2. Mandu: The C ity of Joy
3. Bidar: History and Monuments
4. The Early Histroy of the Deccan
مولوی غلام یزدانی کی مرتب کردہ The Early History of the Deccan دو جلدوں پر مشتمل ہے جن میں ملک کے ممتاز مورخین کے مضامین شامل ہیں اور Fine
Arts of the Deccan کا باب خود مولوی غلام یزدانی کا تحریر کردہ ہے ۔

. 5 محکمہ جاتی رپورٹیں ۔ مولوی غلام یزدانی کے دور نظامت میں شائع شدہ محکمے کی سالانہ رپورٹیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کی پہلی رپورٹ 1916 ء میں شائع ہوئی ۔ ہر سالانہ رپورٹ ، رپورٹ کی مدت کے دوران محکمے کی جانب سے کئے گئے کام کی تفصیلات فراہم کرتی ہے ۔ ان رپورٹوں سے یادگار و قدیم عمارتوں کے سروے ، مرمت و تحفظ ، کتبات اور سکوں کے حصول ، قدیم آثار کے بارے میں کی گئی تحقیق و تفتیش کے با رے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ نیز ان رپورٹوں میں محکمے کی لائبریری کے لئے حاصل کردہ کتابوں اور میوزیم کے لئے خریدے گئے نوادر کی فہرستیں بھی شامل ہیں۔
. 6 حکومت ہند کے عربی اور فارسی کتبات کے ایپی گرافسٹ (ماہر علم کتبات) کے طور پر مولوی غلام یزدانی نے Epigraphia Indo -Moslemica کی چودہ جلدیں مرتب کیں جن میں خود ان کے تقریباً ساٹھ مضامین شامل ہیں ۔ یہ مضامین ابتدائی دہلی سلاطین سے بیجا پور اور گولکنڈہ سلطنتوں کے حکمرانوں تک کا احاطہ کرتے ہیں۔

مولوی غلام یزدانی رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے فیلو ، بھنڈار کر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی رکن اور اسلامک ریسرچ اسوسی ایشن بمبئی کے اعزازی فیلو تھے ۔ انہیں 1936 ء میں حسن خدمات کے صلے میں حکومت برطانوی ہند کی جانب سے آرڈر آف برٹش ائمپائر (O.B.E) کا خطاب ملا جس کے بارے میں سروجنی نائیڈو نے اپنے مخصوص اور بے لاگ انداز میں کہا تھا کہ خطابات لوگوں کو اعز از بخشنے کیلئے دیئے جا تے ہیں لیکن آپ کے معالے میں خطاب کو اعزاز بخشا گیا ہے ۔انہیں عثمانیہ یونیور سٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علی الترتیب 1946 ء اور 1956 ء میں ڈی ۔ لسٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ 1959 ء میں حکومت ہند نے ان کے شاندار کارناموں کے صلے میں پدم بھوشن کے اعز از سے نوازا ۔
مولوی غلام یزدانی ملازمت کے سلسلے میں 1914 ء میں بیرون ریاست حیدرآباد سے یہاں آئے تھے لیکن انہوں نے حیدراباد کو ا پنا وطن ثانی بنالیا اور یہاں مستقل سکونت احتیار کرلی تھی ۔ ناظم آثار قدیمہ کے عہدے سے 1943 ء میں سبکدوش ہونے کے بعد بھی ان کی علمی ، ادبی اور تحقیقی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ان کا 13 نومبر 1962 ء کو حیدرآباد میں انتقال ہوا اور وہ یہیں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے انتقال پر و فیسر ہمایوں کبیر مرکزی وزیر سائنٹفک ریسرچ اور ثقافتی امور نے اس خیال کا اظہار کیا کہ غلام یزدانی تاریخ ہند اور آثار قدیمہ کے بے حد ممتاز ناموں سے ا یک ہے اور ان کا یادگار کارنامہ اجنتا ہمیشہ احسان مندی کے جذبے کے ساتھ یاد رکھا جائے گا ۔
مولوی غلام یزدانی کے کارنامے بے شمار ہیں لیکن شہرہ آفاق غار ہائے اجنتا اور ایلورہ ، ہنمکنڈہ ، اٹاگی وغیرہ کے عالیشان مندروں ، بہمنی و بیجاپور سلاطین کے گنبدوں اور مختلف قلعہ جات کی مرمت و تحفظ ، بیدر کے تاریخی آثار کا احیاء کونڈا پور میں آندھرا شہر کی کھدوائی ضلع رائچور میں اشوک کے دورکے کتبات اور ماقبل تاریخ دور کے قبرستانوں کی دریافت ، ریاست حیدرآباد میں تلنگی کتبوں کا جامع سروے اور مطالعہ اور ان کی کتابیں Ajanta اور Bidar:Its History and Monuments کے ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے وہ ریاست حیدرآباد کی تاریخ میں ہم یشہ یاد رکھے جائیں گے۔