ملازمتوں سے محرومی اور حکومت

   

کورونا کی وباء نے ملک کو ہر شعبہ میںنقصان پہونچایا ہے ۔ عوامی صحت کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے اور ساتھ ہی ملک کی معیشت پر بھی اس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عوام کیآمدنی متاثر ہوگئی ہے ۔ بازار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ عوام کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے اور اس کے نتیجہ میں تجارت بری طرح سے متاثر ہوگئی ہے ۔ جو ڈاٹا معاشی شعبہ پر نظر رکھنے والے اداروں نے جاری کیا ہے ان کے بموجب صرف ماہ جولائی میںہندوستان بھر میں 50 لاکھ افراد اپنی ملازمتوںاور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ اپریل ‘ مئی اور جون کے مہینوںمیںروزگار اور نوکریوں سے محرومی کے اعداد و شمار اس سے الگ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بحیثیت مجموعی کروڑہا افراد ملازمتوںسے اب تک محروم ہوچکے ہیںاور آئندہ چند مہینوںمیں بھی یہی صورتحال رہے گی ۔ جو ملازمتیں اب تک کسی طرح سے بچی ہوئی ہیں وہ آئندہ چند مہینوںمیںکسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہیں۔ اس سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہونے والی ہے ۔ ابھی تک ہی جو اثرات ہوئے ہیں وہ معیشت کو تباہ کرنے والے رہے ہیںاور اس کے اثرات عوام کی روز مرہ کی زندگیوںپر محسوس کئے جانے لگے ہیں۔ لوگ صرف اپنی لازمی ضروریات کی کسی طرح بمشکل تمام تکمیل کرپا رہے ہیں اور دوسری خریداری وغیرہ تقریبا ختم ہوگئی ہے ۔ بازاروںمیں تجارت ماند پڑ گئی ہے ۔ بازار کھلے تو ہیں لیکن تجارت کا تناسب انتہائی کم ہوگیا ہے ۔ صنعتی پیداوار بھی متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ جب بازاروں میںکھپت ہی نہیںہورہی ہے تو صنعتی پیداوار کس طرح برقرار رہ سکتی ہے یا اس میںاضافہ کس طرح کیا جاسکتا ہے ۔ تقریبا ہر شعبہ پر اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ایک ایک شعبہ میں کئی کئی ہزار بلکہ بعض شعبہ جات میںلاکھوں روزگار متاثر ہوکر رہ گئے ہیں ۔ بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ کئی برس میں یہ شرح موجودہ تناسب کو پہونچی ہے ۔ اس سب کے باوجود حکومت اس معاملے میں پوری طرح سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور وہ اس سے نمٹنے کوئی حکمت عملی نہیں بنا رہی ہے ۔

سب سے پہلی اور تشویشناک بات تو یہ ہے کہ حکومت اس صورتحال کا اعتراف تک کرنے کو تیار نہیںہے ۔ حکومت کے کسی بھی اعلان یا پروگرام میںملازمتیں اور عوام کی پریشانیوں کے حل کو کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے ۔ حکومت اور اس کے ذمہ داران کے بیانات محض کانوںکو لبھانے والے بن گئے ہیں۔ محض اعلانات کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا جار ہا ہے اور حقیقی مسئلہ کو حل کرنے اور صورتحال کے مطابق منصوبہ بنانے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہوئی ہے ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہمارا میڈیا پوری طرح سے زر خرید میڈیا کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے ۔ ملک کو درپیش سنگین صورتحال پر مباحث کرنے اور حکومت کو جھنجھوڑنے کی بجائے کسی اداکار کی موت پر سیاست کی جا رہی ہے تو کسی اداکار کی کسی سے ملاقات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ کہیں کورونا کے پھیلاو پر ہندو مسلم کیا جا رہا ہے تو کہیں کسی اور بہانے سے فرقہ واریت کا زہر گھولا جا رہا ہے ۔ لاکھوں افراد ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کی روزی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے ۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کیلئے تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے اور ہمارا میڈیا حکومت کی ناکامیوں اور اس کی خامیوں کو اجاگر کرنے اور اس سے سوال کرنے کی بجائے ایسے مسائل پر وقت اور توانائی ضائع کر رہا ہے جس سے قوم کی فلاح و بہبود کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ نہ ایسے مباحث سے مہنگائی پر قابو کیا جاسکتا ہے اور نہ بیروزگاری کو دور کرنے میں کوئی مدد مل سکتی ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا کرتے ہوئے میڈیا اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی ضرور حاصل کرسکتا ہے ۔

جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے وہ اپنے ہی خول میںبند رہتے ہوئے کام کرنے میں مصروف ہے ۔ اس کا اپنا ایجنڈہ ہے ۔ اس کی اپنی ترجیحات ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوامی مسائل کی کوئی جگہ نہیںہے ۔ لاکھوںافراد کا روزگار سے محروم ہونا اور کروڑہا افراد کی تجارت کا متاثر ہونا ملک کیلئے انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ یہ ہماری قوم کے مستقبل سے جڑا ہوا مسئلہ ہے ۔ ملک کی معیشت کا اسی مسئلہ پر دارو مدار ہے اس کے باوجود حکومت کوئی توجہ دینے تیار نہیںہے ۔یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے اور حکومت کو وقت ہاتھ سے نکلنے سے قبل ہی حرکت میں آنے اور ملازمتوں کے مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔