شیشہ و تیشہ

شیشہ و تیشہ

شوکت جمال ( ریاض ) مزاحیہ قطعہ بڑے بوڑھوں سے اکثر ہم سنا کرتے ہیں یہ بیگم میاں بیوی ہوا کرتے ہیں اک گاڑی کے دو پہیے مگر گاڑی تو

شیشہ و تیشہ

پیاز …!! ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی کچن میں جاکے بھلا کیا وہ دلنواز کرے معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے میں پیار پیار کروں اور وہ

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی فرصت !! پھر کوئی نیا ناچ نچانے کیلئے آ کچھ دیر مجھے اُلو بنانے کیلئے آ اتوار کی چھٹی ہے فرصت سے ہوں میں بھی ٹھینگا ہی سہی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ

شیشہ و تیشہ

اقبال شانہ ؔ چھتری ڈر کے بارش سے کھول دی چھتری تیز آئی ہوا گئی چھتری اُڑ رہا ہوں ہوا میں تقریباً کیسے چھوڑوں نئی نئی چھتری کون ڈرتا ہے

شیشہ و تیشہ

مرسلہ :حافظ محمد وحیدالدین عاصم کنبی…!! دکن کے ممتاز مزاحیہ شاعر جناب سلیمان خطیب مرحوم نے آج سے چالیس سال قبل نظم ’’کنبی‘‘ لکھا تھا ۔ دکنی زبان میں کسان

شیشہ و تیشہ

قطب الدین قطبؔ جمہوریت…!! جمہوریت میں جمہور کی چیخ و پکار سنئے مزے لوٹ رہے ہیں صاحبِ اقتدار سنئے عوام کے مسائل حل کریں گے یہ کیسے ہر بات پہ

شیشہ و تیشہ

مرزا یاور علی محورؔ حاتم وقت …!! بانٹ کر چندہ وہ تو اوروں کا خود کو حاتم خطاب دیتا ہے مال آتا ہے بے شمار مگر وہ نہ ہرگز حساب

شیشہ و تیشہ

مرزا یاور علی محورؔ بڑی غلطی…!! تھی بڑی غلطی ووٹ دینے کی جھیلتے ہیں وہ اب سزا اُس کی کچھ بھی کہہ دیتا ہے بلا سمجھے یہ تو عادت ہے

شیشہ و تیشہ

تجمل اظہرؔ قافیہ پیمائی…!! زباں سے فاعلاتن فاعلن ہی جاری ہے ذہن میں شعر و ادب ہی کا بھوت طاری ہے فقط اک مصرعہ سے مصرعہ کو جوڑنا اظہرؔ یہ

شیشہ و تیشہ

دلاور فگار دعائے نجات کسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائے ردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردے کہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر محمد ذبیح اﷲ طلعت ؔ وعدہ تیرا وعدہ …! بنا ٹِری گارڈ کے ہی وہ پودے لگارہی ہے پوسٹروں پر بڑے بڑے دعوے لگارہی ہے ترقی ریاست کی اس

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ

شیشہ و تیشہ

ڈر لگتا ہے …!! اپنے گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے گھر کے باہرتیرے گلزار سے ڈر لگتا ہے خوشبوؤں لذتوںرنگوں میں خوف پنہاں ہے برگ سے

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ کرونا …!! کرونا کی کیسی وباء یہ چلی ہے کہ لاشوں کی ہرجاء جھڑی لگ گئی ہے ادھوری تمہاری بناء ہر خوشی ہے مرے پاس سب

شیشہ و تیشہ

اقبال شانہؔ آزمانا چاہیئے ! موسموں کی شدتوں کو آزمانا چاہئے برف کھانا چاہئے، اولے چبانا چاہئے گرمیوں میں گرم پانی سے غسل فرمائیے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود انگلش ! ملتی نہیں نجات پھر اِس سے تمام عمر اچھی نہیں یہ چیز دہن میں دھنسی ہوئی انگلش کی چوسنی سے ضروری ہے اجتناب ’’چھٹتی نہیں ہے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود شانہ بہ شانہ چھوڑ دینا چاہیے خلوت نشینی کا خیال وقت بدلا ہے تو ہم کو بھی بدلنا چاہیے یہ بھی کیا مَردوں کی صورت گھر میں ہی

شیشہ و تیشہ

دلاور فگار اردو ڈپارٹمنٹ! اک یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے میں نے کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ کہنے لگے جناب سے مس ٹیک ہو گئی آئم دی

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ وباء کا مذہب …!! تعصب کیوں ذہنوں میں ایسا بسا ہے نشانے پہ ہردم مسلماں رہا ہے بھلا کوئی مذہب وباء کا بھی ہوگا کورونا بھی