شیشہ و تیشہ

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعوداٹل فیصلہ …!اب یہی ہے فیصلہ مجموعہ چھاپیں گے ضرورچیز دُنیا سے چھپانے کی کہاں ہے شاعریغم نہیں ہے ایک بھی نسخہ اگر بِکتا نہیںبر تراز اندیشنہِء سُود و

شیشہ و تیشہ

انور مسعوددرسِ اِمروزبچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گاوہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتیعنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتااْردو وہ زباں

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھیسال بھر بعد !!چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نےسال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںاس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر

شیشہ و تیشہ

حامد سلیم حامدؔسُکھ شانتی …!نوجواں جاکے یہ پوچھا جو اک نجومی سےکیوں میری شادی قریب آکے ٹوٹ جاتی ہےپہلے ہاتھوں کو نجومی نے غور سے دیکھاپھر کہا بیٹا یہ کہتی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعوداندھیر گردیکچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتناکتنا سہما ہوا سا رہتا ہےدل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘…………………………………شاہدؔ عدیلیشہر نامہبلدیہ دیوالیہ ہے شہر

شیشہ و تیشہ

لیڈر نرملیغزل (مزاحیہ )جب بھی دعوت میں کسی کی جائیےآخری کھانا سمجھ کر کھائیےشوق سے ’’گھر واپسی‘‘ فرمائیےلوٹ کر جنت میں اپنی جائیےبن گئی ہوں دادی ماں تو کیا ہُواآج

شیشہ و تیشہ

شبنمؔ کارواریبددُعابے سبب دل جو دُکھایا تو بددُعا دوں گاپھر طبیعت یہ بگڑ جائے گی اتنی تیریدل کا ہوجائے گا پھر بائی پاس آپریشنلیور خراب ہو اور فیل ہو کڈنی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودپدر تمام کند!بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہوسکتا نہیںہم نے سْوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہواگھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئےکام کرنے کے

شیشہ و تیشہ

اظہرؔماسک!!ماسک سے یوں تو ہم بھی ڈرتے ہیںڈرتے ڈرتے اُسے لگاتے ہیںہم گناہگار ہوگئے شایداس لئے منہ چھپائے پھرتے ہیں…………………………المیہ !!درسی کتاب بکتی ہے فُٹ پاتھ پر یہاںجوتے سجے ہوئے

شیشہ و تیشہ

سلطان قمرالدین خسروادب کے ساتھ!!میڈم کی ڈانٹ سن کے ملازم پکار اُٹھاہر چند سنگریزہ ہوں ، گوہر نہیں ہوں میںلیکن کلام کیجئے مجھ سے ادب کے ساتھنوکر ہوں ، کوئی

شیشہ و تیشہ

سید مظہر عباس رضویمُرغی نامہ …!دنیا کے کئی ممالک بشمول برصغیر میں، مرغیوں میں برڈ فلو کی بیماری پھیلنے کے سبب لاکھوں مرغیاں تلف کرنی پڑیں ، اور اس کی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودکھاد …!چارہ جوئی کہ ضرورت ہے بنی آدم کییہ بھی ایجاد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھاگھاس کا ذائقہ سبزی میں چلا آیا ہےکھاد برباد کرے گی ہمیں معلوم

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودصاحب …!اُن سا کوئی مصروف زمانے میں نہ ہوگاگھر پر کبھی ٹھیرے ہیں نہ دفتر میں رُکے ہیںدَورے سے جو لوٹے ہیں تو میٹنگ میں ہیں صاحبمیٹنگ سے جو

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔمعجون تبسم…!!ترے بارے میں جب سوچا بہت ہےمرا معصوم دل دھڑکا بہت ہےجسے جوڑے میں اک بنگلہ ملا ہووہ اپنی بیوی سے ڈرتا بہت ہےیقینا وہ مرا محسن ہے

شیشہ و تیشہ

یہ سال بھی !مسئلے تو پچھلے سال کے اپنی جگہ رہےسب سوچتے رہے کہ نیا سال آ گیاخوشیاں جو بانٹتا تو کوئی نئی بات تھیگزرا ہوا یہ سال بھی عمریں

شیشہ و تیشہ

شاہد ریاض شاہدؔنیا سال مبارکلو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیاگندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیابجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!ہر سال کی طرح پھر نیا

شیشہ و تیشہ

دلاور فگاردعائے نجاتکسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائےردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردےکہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگیالہ العالمیں اس قید

شیشہ و تیشہ

ہنس مکھ حیدرآبادیمزاحیہ غزلدو ضرب دو تو چار ہوگا ہیمجھ کو بیگم سے پیار ہوگا ہیجس جگہ ہونگے سو عدد بیماراُس جگہ اِک انار ہوگا ہیہے منسٹر کا لاڈلا بیٹاجُرم

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعودتسمہ پا…!اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سےہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہےخضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزراٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی

شیشہ و تیشہ

طالب خوندمیری اب دیکھیے جناب ! اِک بدنصیب ، اپنے پُرآشوب گاؤں سے کل شب ، صحافیوں سے یہ کہہ کر نکل گیا ’’چولھا نہیں جلا تھا کئی روز سے