بنگال کے ڈاکٹرس کی ہڑتال’ڈاکٹرس نے بھی ہمارے ساتھ مارپیٹ کی‘ مجرموں کو سزا دی جانی چاہئے‘ متوفی کے گھر والوں کا بیان

,

   

سعید کی موت کے بعد جونیر ڈاکٹرس اور مریض کے رشتہ داروں کے درمیان تصادم کا واقعہ پیش آیاتھا‘ جس کی وجہہ سے ایک ڈاکٹر شدید طور پر زخمی ہوگیاتھا۔ تشدد کے فوری بعداسپتال میں جونیر ڈاکٹرس نے کام روک دیا جس کو ریاست میں حکومت کی نگرانی میں چلائی جانے والے تیرہ اسپتالوں سے حمایت حاصل ہوئی

کلکتہ۔ڈاکٹر س کے احتجاج پانچویں دن میں پہنچنے کے بعد ہفتہ کے روز متوفی 75سالہ محمد سعید کے گھر والوں جس کی موت کے بعد این آر ایس میں تشدد ہواتھا کے رشتہ داروں نے یہ الزام عائد کیاکہ واقعہ کے بعد ان کے کچھ پڑوسیوں کو گرفتار کرلیاگیاہے‘

مگران کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

ان لوگوں یہ بھی الزام عائد کیاکہ واقعہ کو ”فرقہ ورانہ رنگ“ دینے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں

۔تانگرا کی بی بی باگان لائن میں واقع ایک ٹرویل ایجنسی کے دفتر میں بیٹھے سعید کے پوترے طیب حسین نے کہاکہ ”ہمارے گھر کے ایک رکن کا ہمیں نقصان ہوا۔ ڈاکٹرس نے بھی ہمارے ساتھ مارپیٹ کی جس کی صداقت سی سی ٹی وی فوٹیج سے ہوجائے گی۔

ہر شہری کے لئے حصول انصاف کا طریقہ مساوی ہے۔ ہمارے پانچ پڑوسی گرفتاری کے بعد جیل میں ہیں۔ ڈاکٹر کے متعلق کیا؟قصور وار کو سزا ملنی چاہئے‘ چاہئے وہ ہمارے پڑوسی ہوں یاپھر ڈاکٹرس۔

ہمیں بھی ڈاکٹرکے زخمی ہونے پر افسوس ہے جو ممکن ہے کہ پتھر کے مار سے زخمی ہوگئے ہیں۔ان کی عاجلانہ صحت یابی کے لئے ہم دعا گو ہیں۔

مگر ہڑتال ختم ہونی چاہئے۔ ہزاروں مریض متاثرہورہے ہیں“۔سعید کی موت کے بعد جونیر ڈاکٹرس اور مریض کے رشتہ داروں کے درمیان تصادم کا واقعہ پیش آیاتھا‘ جس کی وجہہ سے ایک ڈاکٹر شدید طور پر زخمی ہوگیاتھا۔

تشدد کے فوری بعداسپتال میں جونیر ڈاکٹرس نے کام روک دیا جس کو ریاست میں حکومت کی نگرانی میں چلائی جانے والے تیرہ اسپتالوں سے حمایت حاصل ہوئی۔

تشدد کے سلسلے میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیاگیاہے۔ سعید کے گھر والوں نے بھی این آر ایس اسپتال کے تین ڈاکٹروں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ٹیم نے منگل کے روز متوفی کے گھر والوں سے ان کا موقف جاننے کے لئے ملاقات کی تھی۔طیب نے کہاکہ”مذکورہ سی سی ٹی وی فوٹیج تمام چیزیں دیکھائیں گے۔

ڈاکٹرس نے ہم پر حملہ کیا اور ہمارے ساتھ شامل کچھ لوگوں نے ڈاکٹرس کو پیٹا۔ تصادم ایک طرفہ نہیں تھا۔ ہمارے ایک فیملی ممبرکا ہمیں نقصان ہوا ہم سے ایک جذباتی ہوگیا۔

ہم سے ایک نے ڈاکٹر کا ہاتھ کھینچ کر مریض کو دیکھنے کا استفسار کرتے ہوئے بحث کی۔انہوں نے اس کو غلط برتاؤ اور بے ہودہ حرکت کے طو رپر لیا۔

میں نے نے دو مرتبہ ان سے معافی مانگی جس میں سے ایک مرتبہ پولیس بھی موجود تھی۔ مگر ڈاکٹرس نے ہمارے معذرت کوقبول کرنے سے انکار کیا

۔ وہ ہمیں دادا کی نعش اسپتال کے باہر لے جانے کی منظور ی دینے سے انکار کررہے تھے۔

ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہاکی اسٹیک‘ لڑکیوں لئے کھڑے تھے۔ پولیس کی موجودگی میں یہ سب ہورہا تھا“۔

متوفی کے بیٹے شبیر نے کہاکہ ”جی ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اسپتال میں مصلح گارڈس ہوتے ہیں مگر انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے

کہ وہ وہ مریض یا اس کے رشتہ دار کے ساتھ بدسلوکی کرتا دیکھ انہیں روکنے کاکام کرے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ کسی کے گھر میں موت ہوتی ہے توان کے دل پر کیاگذرتی ہے“۔

شبیرنے کہاکہ ”کچھ لوگ کیوں اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ کیونکہ یہ حصہ جس کی قیادت بی جے پی کررہی ہے ایک کمیونٹی کو نشانہ بنارہا ہے۔

وہ ہندو او رمسلمانوں کے درمیان میں ایک لائن کھینچنا چاہا رہے ہیں۔ اس کی ہم مذمت کرتے ہیں“۔ طیب نے کہاکہ ”نعش 9:40کو حوالے کرنا تھا۔ میرے داد کی موت5:40کو ہوئی۔

اس کے بجائے ڈاکٹرس ہاکی اسٹیک او رلکڑیوں کے ساتھ ہمارا تعقب کرنا شروع کردیا۔ نصف رات کے بعد تصادم کا واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے ہمارے بچوں کو پیٹا۔

پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج کیا۔ ہمیں اسپتال کے باہر کردیاگیا“۔

جب پوچھا گیاکہ ایک ٹرک بھر کے نوجوان اسپتال پر جمع ہوئے تھے تو طیب نے کہاکہ ”متوفی مقامی مسجد کے امام کے والد تھے‘ لہذا درجنوں لوگ پڑوس سے ان کی نعش لینے کے لئے آئے تاکہ تجہیز وتدفین کاکا م انجام دینے میں آسانی ہو۔یہ عام بات ہے۔

پولیس کو سامنے کھڑکے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کرائیں“۔گرفتار کئے گئے پانچ لوگوں کو عدالت نے قانونی تحویل میں بھیج دیاہے۔