آخر کیو ں شیعہ وقف بورڈ چیرمن بی جے پی کی خوشنود ی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟

,

   

لکھنو۔چیرمن اترپردیش شیعہ وقف بورڈ وسیم رضوی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گھٹنوں تک اگئے ہیں۔ عالیشان رام مندر کی تعمیر کے لئے حمایت کے اعلان سے لے کر 51,000روپئے کا عطیہ مندر کی تعمیر تک‘ مدرسوں کو ائی ایس ٹکنالوجی کو فروغ دینے کا مرکز قراردینے سے متنازعہ فلم’رام کی جنم بھومی“ او ر”عائشہ“ کو پروڈیوس کرنے والے وسیم رضوی نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

رضوی نے اعلان کیاہے کہ وہ حکومت سے درخواست کریں گے سپریم کورٹ کی جانب سے پیش کردہ پانچ ایکڑاراضی شیعہ وقف بورڈ کے حوالے کرے کیونکہ سنی وقف بورڈ اس پیشکش کو تسلیم نہیں کررہا ہے۔

رضوی نے کہاکہ”ہم اس اراضی پر اسپتال کی تعمیر کریں گے جو سوسائٹی کے لئے مددگارثابت ہوگا“۔مگر کیوں وسیم رضوی موافق بی جے پی ہوگئے ہیں‘ یہاں تک ساری کمیٹی ان کی تذلیل کررہی ہے؟۔

شیعہ علماؤں کے مطابق جنھوں نے اپنے نا م ظاہر کرنے کی شرط پر کہاکہ رضوی بی جے پی کی سمت رضوی کی پیش رفت بنیادی طور پر حکومت کے عتاب سے خود کو بچانے کی کوشش کا حربہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ”سماج وادی دور میں وسیم رضوی دراصل اعظم خان کا دست راست تھا یہاں تک انہوں نے یوپی شیعہ وقف بور ڈ کا انہیں چیرمن بھی بنایا۔

ان پر بدعنوانی او ردھوکہ دھڑی کے درجنوں ایف ائی آر درج ہیں“۔ لکھنو سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے کہاکہ وہ جان بوجھ کر وہ ”دونوں فرقوں کے درمیان داڑ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کمیونٹی کو پسماندہ بنانے میں حکومت کو مدد مل سکے“

۔پچھلے سال مسلم گروپوں نے یہاں تک کے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ رضوی کے مبینہ جھوٹ اور سیاسی مقاصد کا ”پردہ فاش“ کیاتھا۔مسلم گروپوں کے قائدین رضوی کے بیان کو سیاسی مفاد پرستی قراردیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ رضوی خود کو بچانے کی کوشش میں ہے کیونکہ ان وقف بورڈ کی معیاد اور متنازعہ سیاسی ماضی کے دوران درجنوں ایف ائی ایک مبینہ بدعنوانی پر درج کئے گئے ہیں۔رضوی کے خلاف الزامات میں بورڈ کے 70کروڑ روپئے کا غبن بھی شامل ہے۔

تاہم رضوی ان الزامات کو بے بنیاداور”ان کی دلیل کو کمزور“ کرنے کی کوشش قراردیتے ہی

ں۔پچھلے سال ستمبر میں انہیں کمیونٹی سے بیدخل اس وقت کردیاگیاتھا جب انہوں نے مدرسوں میں ہم جنس پرستی کے واقعات پیش آنے پر مشتمل بیان دیاتھا۔ امام فاونڈیشن کے عارف قاسمی نے کہاکہ ”قبل ازیں وہ اعظم خان کے بغیر کبھی نہیں دیکھایا۔

اب وہ یوگی حکومت کی آؤ بھگت میں لگا ہوا ہے تاکہ بدعنوانی کے مقدمات کو دفن کردیاجاسکے“۔

اعظم خان کے ساتھ اس پر بھی دھوکہ دھڑی کا ایک مقدمہ درج ہے۔

ماہ اگست میں مذکورہ ایف ائی آر اعظم نگر پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی جو ضمیر نقوی نامی عالم دین کی شکایت پر تھی‘ جس میں اعظم خان او ردیگر بشمول وسیم رضوی پر الزام ہے کہ انہوں نے رام پور میں تغلب کارائیوں کے ذریعہ وقف جائیداد کے ریکارڈس میں تبدیلی لائی تاکہ مذکورہ اراضی کومولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے حوالے کی جاسکے جہاں کے اعظم خان چانسلر ہیں

۔ذرائع کے مطابق وسیم رضوی کا ماضی نہایت غریب ہے اور ان کے والد ریلوے کے ایک ملازم تھے۔

سعودی عرب‘ جاپان اور امریکہ کی مختلف صنعتو ں میں کام کرنے کے بعد وہ ہندوستان واپس لوٹا تاکہ میونسپل الیکشن کے ذریعہ اپنی سیاسی اننگ کی شروعات کرسکے۔

وہ شیعہ وقف بورڈ کا رکن بنے اور پھر چیرمن مقرر کئے گئے۔

انہوں نے پچھلے سال شیعہ کمیونٹی کے مفاد کی حفاظت اور ہم آہنگی کا حوالہ دیتے ہوئے انڈین شیعہ عوامی لیگ نامی پارٹی کا بھی اعلان کیاتھا۔

تاہم رضوی نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے کام کو جار ی رکھیں گے