آزاد صحافی کو جان سے مارنے‘ عصمت ریزی کی دھمکی

,

   

مذکورہ صحافی کی جانب سے چلائے جانے والے تین سال پرانے یوٹیوب چیانل نے خود ساختہ ہندوتوا سیاست کے حامیو ں او ربی جے پی کی ناراضگی کاسبب بنا ہے۔


اس کشیدہ دور کی طرف یہ ایک نمایاں اشارہ ہے جہاں پر ہم اپنی زندگی بسر کررہے ہیں اور اس میں ایک خودساختہ بے باک لیکن انتہائی باصلاحیت‘ نوجوان یوٹیوبر تھلاسی چندو کو خود ساختہ حب الوطنی پر فخر کرنے والی اور مذہبی اقدار کی پاسبانی کی دعویدار ٹرولنگ فوج کی طرف سے موت اورعصمت دری کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مذکورہ صحافی کی جانب سے چلائے جانے والے تین سال پرانے یوٹیوب چیانل نے خود ساختہ ہندوتوا سیاست کے حامیو ں او ربی جے پی کی ناراضگی کاسبب بنا ہے۔مذکورہ صحافی کو پریشان کن‘ بے ہودہ تبصروں‘ گالیوں‘جان سے مارنے اور عصمت دری کی دھمکیوں سمیت ٹرولنگ کا نشانہ بنایاگیا ہے۔

مخالفین نے ان کی تضحیک او رتذلیل کو اپنافرض سمجھ لیا ہے کہ کم از کم چار یوٹیوب چینلز اور ویب سائیڈس اسے بدنام کرنے اور گالیا ں دینے کے لئے زائد وقت تک کام کررہے ہیں۔

ایناڈو میں ایک تربیت حاصل کرنے والی صحافی کے طور پر اپنے کیریر کی شروعات کرنے والی اس صحافی نے 2020میں اپنا یوٹیوب چیانل شروع کرنے سے قبل 16سالوں تک ویلوگو‘ ای ٹی وی‘ اے بی این اورساکشی میں کام کیاتھا۔

ان کے چیانل کے ابتدائی الفاظ تھے کہ ”میں نے مین اسٹریم میڈیا میں کام کیامگر جن مقاصد کے ساتھ صحافی بنی وہ پوری طرح سے پورا نہیں ہوسکا۔

اس طرح میں یوٹیوب پر یہ سفر اس خواہش کے ساتھ شروع کی کہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں پر میں کسی بھی سماجی مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکوں۔یہ پلیٹ فارم ذات پات‘ مذہب میں یقین نہیں رکھتااور نہ ہی اس میں صنفی امتیاز ہوگا۔

اگر آپ کے پاس مواد ہے تو آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اسی لئے میں یہاں متاثر کن کہانیوں سے لے کرسماجی‘ سیاسی او رانسانی داستانوں تک کا مواد مطلوبہ تناظر کے ساتھ پیش کرنا چاہتی ہوں“۔درحقیقت وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں اور دس ویڈیو ہر ماہ کی اوسط سے پچھلے 33مہینوں میں 330ویڈیو ز بنائی۔ ان کی ہر ایک تخلیق کردہ کہانی ٹھوس اعداد وشما ر‘ بے عیب دلائل اور انسانی و سائنسی نقطہ نظر سے بنائی گئی ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے 1.82لاکھ سبسکرائبرس پر مشتمل یوٹیوب چیانل پرہزاروں ناظرین نے اپنا بیشمار پیار اور محبت نچھاور کی ہے۔ چینل میں ثقافت‘ تاریخ‘ طرز زندگی‘ لوگوں کی نقل وحرکت‘ معاشی مسائل‘ انتظامی بداعمالیوں اور یقینا نفرت کی سیاست پر تبصرے سمیت مختلف قسم کی کہانیاں ہیں۔

کیونکہ وہ عصری واقعات پر تبصرہ نگار کے طور پرمرکزی اور یاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں دونوں کی پالیسیوں او رطریقوں پر موقف اختیار کرنے سے بچ نہیں سکتی تھیں۔

مثال کے طور پر ان کے کچھ حالیہ ویڈیوز منی پور کے قتل عام او رحکومت کی بے عملی‘ بالاسور ٹرین حادثہ اورحکومت کی بے حسی‘ برج بھوشن سنگھ کی جنسی ہراسانی کے خلاف پہلوانوں کا احتجاج‘ چتنور ایتھنول فیکٹری کے خلاف لوگوں کی جدوجہد‘ دہلی شراب گھوٹالہ‘ سے متعلق ہیں۔

ٹی ایس پی ایس سی امتحانات کے پیپر لیک‘ آدمی پرش‘ جئے بھیماور بلگام جیسے فلمیں۔ واقعی یہ ایک بڑا دائرہ ہے اور جو تحقیق پروڈکشن میں کی گئی ہے‘ اسکی پیشکش اور اس کے نتائج نے لوگوں کی توجہہ مبذول کرائی۔ دوسالوں میں وہ ایک ایسی طاقت بن گئی جو قابل بھروسہ سمجھی جانی لگیں۔


اس کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش
ہاں‘ وہ طاقتیں جو اس کی آواز‘ اس کی مقبولیت اور اس کے اثرات کو پہنچاتی ہیں وہ اسی ملک او رریاست کی تمام طاقتور آوازوں کی طرح خاموش کرنا چاہتے تھے۔

تاہم اس معاملے میں حکومت راست طور پر نہیں بلکہ وہ طاقتیں جس کو مرکزی کی حمایت حاصل ہے وہ آگے ائی ہیں۔جب کبھی وہ کسی سماجیی مسئلے پر مشتمل ویڈیو پوسٹ کرتی ہیں تو مرکزی حکومت بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کے حمایتی ان کا خون بہانے کے لئے آجاتے ہیں۔

مذکورہ صحافی‘ ان کے گھر والوں اورساتھیوں کے خلاف منظم انداز میں بدسلوکیوں کی تحریک چلاتے ہیں۔اس صحافی کی کردار کشی سے وہ شروعات کرتے ہیں۔ایک مسلمان کی اولاد‘ شہری نکسل‘ ہندوکے طور پرکام کرنے والی مسلمان‘ وغیرہ وغیرہ کا نام دیکر انہیں نشانہ بنانے کاکام کیاجاتا ہے۔

ان کی چھیڑ چھاڑ والی تصویر کے حوالے سے اس صحافی کو نشانہ بنانے کے لئے چار یوٹیوب چیانلس بنائے جاتے ہیں‘ تاکہ اس صحافی کے خلاف نفرت پھیلائی جاسکے۔

یہ وہ جرائم ہیں جس کے لئے ائی پی سی اورائی ٹی ایکٹ کے تحت سزا دی جاسکتی ہے۔ کسی عورت کی عزت کو مجروح کرنا‘ کسی مخصوص شخص کے حلاف زہر پھیلانے کے لئے ٹکنالوجی کااستعمال پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے طور پرکاروائی کرسکتے ہیں۔

مگر یہ ادارے ایسے کرنے کے بجائے اس صحافی کی جانب سے کی گئی شکایتوں کو نظر انداز کردیا۔درحقیقت ایک سال قبل اس طرح کی دھمکیاں جب سامنے ائی تھیں تو کسی اور نے نہیں بلکہ ریاست تلنگانہ وزیر انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کے ٹی آر نے خود وزیرداخلہ امیت شاہ‘ ڈی جی پی کو ایک ٹوئٹ ٹیگ کرکے ٹرولس اورخاطیوں کے حلاف کاروائی کرنے کوکہاتھا‘ اس طاقتور ٹوئٹ کو بھی نظر انداز کردیاگیاتھا۔

ایک سال قبل سے زیادہ کاوقت ہوگیا ہے جب دھمکیو ں کا سلسلہ شروع عروج پرپہنچ گیاتھا اورتھلاسی نے بڑے پیمانے پر لوگوں سے پرجوش اورجذبات اپیل لکھی اور24جون کواپنے فیس بک پیچ پر اس اپیل کوپوسٹ کیاتھا۔ یہ اپیل جوکہ1200الفاظ پر مشتمل تھے انٹرنٹ کی دنیا میں ہنگامہ مچادیا۔


بی جے پی او رایم ائی ایم کو ایک جیسا قراردیا
ان کہانیوں کی تفصیلی اورکامل دلیل ”میں بی جے پی اور مزید ویڈیوز کیوں بناؤں‘؟“ کے عنوان پر ایک اپیل تھی۔ اس نوٹ میں انہوں نے جعلی اکاونٹس اورفرضی ناموں کے ساتھ اپنے تمام ٹرولز کو چیالنج کیاجو اپنی اصل شناخت بھی نہیں دیکھا سکتے ہیں۔

انہوں نے ان کے بے ہودہ او رتوہین آمیز پیغامات کوبے نقاب کیا۔ان ٹرولز کا اندازہ انہوں نے جی ایچ ایم سی انتخابات سے قبل بنائے گئے دوسال پرانے ویڈیو سے لگایا‘ جس میں انہوں نے عوام سے مذہبی تعصب سے دور رہنے کی اپیل کی تھی۔

دراصل لوگوں کو انہوں نے مذہبی تفرقہ انگیزی کا شکار نہ ہونے کی اپیل کرتے ہوئے بی جے پی او رایم ائی ایم کو ایک جیسابتایاتھا۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی مفادات کے ان ہتھکنڈوں سے لطف اندوز ہونا خطرناک ہے۔انہو ں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی ترقی او راپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔

انہوں نے کیرالا کی کہانی او رگجرات میں لاپتہ لڑکیوں‘من کی بات او رمنی پور سمیت کئی مسائل کے بارے میں بات کی۔ اس صحافی نے اپنے ویڈیوز میں مرکزی حکومت کی طرف سے قیمتوں میں اضافہ‘ بے روزگاری‘او رپی ایس یو ایز کی اثاثہ مانٹائزیشن کے نام پر کھلی فروخت میں اپنائی گئی پالیسیوں پر سوال اٹھایا۔

عوام سے انہوں نے اپنے ویڈیوز کے ذریعہ واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعہ پھیلائی جانے والے جھوٹ کاشکار نہ ہونے کی اپیل کی۔ اپنی اپیل میں اس صحافی نے کہاکہ ”جب اتنے کرڑوں ذہن اس مذہبی زہر سے بھرے ہوئے ہیں‘ تو آپ مجھ جیسی ایک یادو آوازوں سے پریشان ہیں جو فرقہ پرست جماعتوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔

میں جانتی ہوں کہ میرایہ ایک خطرناک سفر ہے۔ کسی دن کوئی معصوم نوجوان‘ جو ان کی محبو ب جماعت کے زہر سے بھرا ہوا ہے‘ مجھ پر حملہ کرنے کے لئے چاقو یاگولی کا استعمال کرسکتے ہیں‘ لیکن جب میں کروڑو نواوجنوں اس فرقہ ورانہ زہرکے نشے میں دھت ہوتو میں اپنی بات بتانے سے پیچھے نہیں رہ سکتی ہوں۔

آپ مجھ سے نفرت کررہے ہیں‘ مجھے گالی دے رہے ہیں اور میری تصویر کو یہ بتانے کے لئے چھیڑ چھاڑ کی ہے کہ مذہبی منافرت اس ملک کے نوجوان کے لئے نقصاندہ ہے۔

آپ جاری رکھیں‘ کوئی سیاسی پارٹی میری حمایت میں نہیں ائیگی کیونکہ میں کسی سیاسی پارٹی کی رکن نہیں ہوں۔ کوئی بھی ذات برداری میری حمایت نہیں کریگی کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ میری ذات کیاہے۔

چونکہ میرے پاس حکومت طرف سے جرنلسٹ اکریڈیشن کارڈ بھی نہیں ہے‘ اسلئے کوئی گروپ میرے لئے کھڑا نہیں ہوگا۔ حقیقت میں طاقت سے میں محروم ہوں اورجب کبھی مجھے ایسا لگتا ہے میں اس قسم کی وضاحت نہیں کرسکتی ہوں۔

کسی دن میں تھک جاؤں گی‘ خاموش ہوجاؤں گی‘ رہنے دیں۔ لیکن اس سے پہلے مجھے اپنی تنہاآواز او راپنی اذیت کو ریکارڈ کرنے دو“۔

مذکورہ صحافی کی اس متحرک اپیل نے تلگو سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ کررکھ دیا اوردونوں تلگو ریاستوں کے کونے کونے سے سینکڑوں میٹنگوں‘ مظاہروں‘ بیانات کے ساتھ زبردست ردعمل اوریکجہتی کا اظہا ر ہوا ہے۔

اس نے باضابطہ طور پرپولیس میں شکایت کی‘ لیکن 72گھنٹوں کے گذر نے کے بعد بھی ٹکنالوجی میں مہارت رکھنے والی تلنگانہ حکومت اورپولیس کی طرف سے مجرموں کو پکڑنے کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے‘ یہاں تک کہ پچھلے تین دنوں میں ٹرولز کی رفتار اور مہر نئی بلندیوں پر پہنچ گیاہے۔۔