آسام ‘ آج این آر سی کی اشاعت

   

مانا کہ اپنے قرب کی دولت کے ماسوا
سب کچھ وہ بخش دینگے ‘ مگر لے کے کیا کروں
آسام ‘ آج این آر سی کی اشاعت
آسام میں ایک طویل اور صبر آزما عمل کے بعد ‘ جو کئی تنازعات اور بے قاعدگیوں سے پر بھی رہا ہے ‘ قومی شہریت رجسٹر ( این آر سی ) کی آج اشاعت عمل میں آنے والی ہے ۔ اس فہرست کی اشاعت سے قبل ریاست کے کئی علاقوں میں بے چینی کی فضاء پائی جاتی ہے ۔ لوگ اندیشوں کا شکار ہیں کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہوگا یا نہیں۔ اب تک ریاستی حکومت اور این آر سی حکام کی جانب سے این آر سی کی مسودہ فہرست اور عبوری فہرست جاری کی گئی تھی لیکن کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ فہرست کئی خامیوں سے پر ہے اور کئی حقیقی شہریوں کے نام اس میں شامل نہیں کئے گئے ہیں۔ اس فہرست کی تیاری میں کئی با قاعدگیوں کا بھی پتہ چلا ہے اور حکام کی جانب سے کچھ عہدیداروں پر عمدا خرد برد کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے ۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ جن افراد کے نام اس فہرست میں شامل نہیں کئے گئے ہیں ان کو فوری حراست میں نہیں لیا جائیگا بلکہ انہیں ایک ٹریبونل سے اپیل کرنے کی اجازت دی جائے گی ۔ یہ عمل شہریوں کو ایک اور مرتبہ زیر بار کرنے کا ہے ۔ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہونی چاہئے کہ وہ تمام ہندوستانی شہریوں کے مفادات کا اور ان کی شہریت کا تحفظ کرے ۔ اس کی بجائے شہریوں پر ہی بار ثبوت عائد کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ جو شہری اپنے ثبوت اور دستاویزات بھی پیش کر رہے ہیں انہیں بھی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے اور انتظامیہ کی غلطیوں کو دور کرنے کی بجائے عوام ہی کو ہراساں و پریشان کیا جا رہا ہے ۔ ریاست کے عوام اپنے کام کاج کو چھوڑ کر این آر سی سیوا کندر کے چکر لگانے پر مجبو کردئے گئے تھے اور وہاں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور ان کی داد رسی کیلئے کوئی موثر انتظامات نہیں کئے گئے تھے ۔ ان ہی سیوا کیندروں پر الٹ پھیر کی بھی اطلاعات ہیں اور یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ کچھ عہدیداروں کی جانب سے اس فہرست کی اشاعت جیسے حساس مسئلہ پر بھی لاپرواہی کی گئی اور بدعنوانیاں بھی کی گئی ہیں۔ اس صورتحال میں این آر سی کی قطعی فہرست کی اشاعت سے قبل مختلف گوشوں میں جو بے چینی پائی جاتی ہے وہ بیجا نہیں ہے ۔
ریاست کے شہری برسہا برس بلکہ کئی دہوں سے یہاں مقیم ہیں۔ ان کی ایک سے زیادہ نسلیں یہاں زندگی گذار چکی ہیں اگر ان کی شہریت پر کوئی شک ہے تو حکومت کو ایسے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت تھی جو ان کی شہریت کو مشکوک بناتی ۔ حکومت ہی ان کی شہریت پر سوال کر رہی ہے تو پھر حکومت کو ہی ان کی شہرت پر شکوک کو واضح کرنا چاہئے تھا ۔ ایسا کرنے کی بجائے عوام پر شہریت ثابت کرنے کا بوجھ عائد کردیا گیا ہے جو تشویش کا باعث رہا ہے ۔ حکومت کے گوشے بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کئی حقیقی ہندوستانی شہریوں کے نام اس فہرست میں غلطی سے یا سہوا خارج ہوگئے ہیں۔ جب اس طرح کی غلطیوں کا اعتراف کیا جا رہا ہے تو عوام کو اس معاملہ میں راحت بھی دی جانی چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عہدیداروں کی غلطیوں یا تساہل کا خمیازہ حقیقی شہریوں کو بھگتنا پڑے ۔ جن شہریوں کے نام اس فہرست میں شامل نہیں ہوئے ہیں انہیں ریاستی حکومت نے ٹریبونل سے رجوع ہونے کا موقع دینے کا بھی اعلان کیا ہے جو قابل خیر مقدم ہے ۔ تاہم حکومت کو اس معاملہ میں غریب عوام کی مدد بھی کرنی چاہئے ۔ جو لوگ ٹریبونل سے رجوع ہونا چاہتے ہیں ان کی معیشت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مفت خدمات یا مدد فراہم کرنے کیلئے بھی حکومت کو غور کرنا چاہئے جیسا کہ کچھ غیر سرکاری رضا کارانہ تنظیموں کی جانب سے کیا جا رہا ہے ۔
اب جبکہ این آر سی کی قطعی فہرست کی کل اشاعت عمل میں آنے والی ہے تو اس کے بعد حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ قطعی فہرست کی اشاعت کے بعد بھی جو حقیقی ہندوستانی شہری ہیں انہیں کسی طرح کی پریشانی ہونے نہ پائے ۔ جو شہری عہدیداروں کی غلطی سے اس فہرست میں جگہ پانے سے محروم ہوگئے ہیں انہیں اپنا دعوی پیش کرنے اور اس کی جانچ کے مناسب اور خاطر خواہ انتظامات کئے جانے چاہئیں۔ فہرست میں اگر غلطیاں ہوئی ہیں تو ان کو دور کرنے میں بھی حکومت کو پس و پیش کا شکار نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ لاکھوں ہندوستانیوں کی شہریت کا مسئلہ ہے اور اس پر کوئی تساہل نہیں برتا جانا چاہئے ۔