ائے چراغ علم و فن ہر سوتجلی ہے تری پروفیسر ڈاکٹر سید عطا اللہ حسینی قدسی

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

شعور و فکر و نظر کے دعوے دلیل و حجت کے محتاج ہوتے ہیں، اس کے بغیر ان کی نہ کوئی قیمت ہے نہ کوئی وقعت، علم و فن کی بنیاد میں اعتبار و استناد کے گہر ہونے تک کا سفر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید عطا اللہ حسینی قدسی نے کوئی بھی دعویٰ بلادلیل نہیں چھوڑا، آپ نے درس و تدریس ، تنظیم و تدبیر، تبحر و تفکر، نثر و نظم، تحقیق و تنقید، تصنیف و ترجمہ، بیان و خطاب جیسے میدانوں میں ہر کام نئے چراغ روشن کئے اور اپنے افکار و اشعار سے علمی ،تحقیقی اور ادبی دنیا کے ایک بڑے حصہ کو متاثر کیا۔ آپ کا خمیر و ضمیر دکن کی سوندھی مٹی سے اٹھا اور علم و ادب کی دنیا میں پر ابر باراں کی طرح چھا گیا، آپ مرکزی دانش گاہ جامعہ نظامیہ کا علمی و تحقیقی چہرہ ہیں اور عالمی سطح پر اپنی مادر علمی کے سفیر ہیں۔ خطابت، کتاب اور صحافت کا تکون ہیں، کئی رسالوں اور جرائد بالخصوص روزنامہ سیاست میں آپ کا خصوصی کالم ہر ہفتہ شائع ہوتا ہے۔ آپ کی نثری تصانیف اور شعری مجموعہ، موج خیال ، فکر و فن کیلئے آفاق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عمر کی آٹھویں دہائی میں ہونے کے باوجود آج بھی آپ کا علمی و ادبی سفر پوری مستعدی اور تند ہی سے جاری و ساری ہیں۔ پروفیسر مولانا سید عطا اللہ حسینی قدسی نے 1931 ء میں علوم ظاہری و باطنی سے مالا مال گھرانے میں آنکھ کھولی، شفقت و محبت کے سایہ میں پرورش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد سلسلہ قادریہ ملتانیہ کا یہ چشم و چراغ، باضابطہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ’’ازہر ہند‘‘ جامعہ نظامیہ میں داخل کیا گیا۔ تعلیم میں دلچسپی، نور حقیقت کو پانے کی تڑپ نے جن اساتذہ کے دامن سے وابستہ کردیا۔ ان میں علامہ محمد حسینؒ شیخ العقائد مولانا غلام احمدؒ نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نابغہ روزگار ہستیوں نے آپ کو اپنے فیضان علمی سے خوب خوب سیراب کیا۔ مولانا کی ذہنی و فکری تعمیر و تشکیل میں ان اساتذہ کرام کو فراموش نہیں کیا جاسکتا چنانچہ آپ اسم بامسمی عطا اللہ (اللہ کی دین) بن کر تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، تصوف، فلسفہ و حکمت، درس و تدریس، تصنیف و تالیف، تحقیق و ترقیق، تنظیم و تحریک، شعر و ادب، خطابت و قیادت ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر بکھیر رہے ہیں۔ جامعہ نظامیہ میں تعلیمی مراحل طئے کئے اور سند فضیلت حاصل کی۔ اس کے علاوہ کلکتہ سے (H.M.B) اور کراچی یونیورسٹی سے (MA) کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں ایک طویل عرصہ تک محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ گورنمنٹ کالج جامعہ ملیہ ملیر کراچی کے شعبہ معارف اسلامیہ کے صدر رہے۔ احیاء سنت اور انسداد بدعت کے حامل المجلس القادری اور دارالعلوم سراج القرآن جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔ درس قرآن کریم و درس حدیث نبویؐ گویا زندگی کا جز ہیں۔ عالمانہ طرز استدلال، شگفتہ و سلیس اَسلوب ،فکر و تحریری توازن تاریخی مواد سے آراستہ آپ کی تصانیف مستند و معیاری تسلیم کی جاتی ہیں۔ ترجمہ تحشیہ تلخیص و تسہیل کے انوکھے انداز نے ادبی و تحقیقی حلقوں میں ایک ممتاز مقام کا مالک بنادیا ہے۔ آپ کی ایک تصنیف اسلامی نظام، علمی و عوامی دونوں حلقوں میں کافی مقبول ہوئی، پاکستان کے مرحوم صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک خط کے ذریعہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ، آرٹس، کامرس اور سائنس کے طلبہ کے لئے انتہائی معلوماتی، نصابی کتاب ’’اسلام کی بنیادی تعلیمات‘‘ تصوف، کی ایک قدیم نایاب کتاب ’’نورالحقیقت‘‘ کی ترتیب و تسہیل تحشیہ، تنزلات ستہ، کی سیر حاصل تشریح ، اُردو زبان میں پہلی بار قدیم فارسی مخطوطہ شاہد الوجود‘‘ کا ترجمہ و تحیثیتہ، قرآن کریم پر اپنی نوعیت کا واحد تحقیقی کام ’’مصجم القرآن‘‘ رسالہ قشیریہ‘‘ کی تشریح و ترجمہ، سلوک و طریقت کا الہامی دستور، فتوح الغیب، کی تشریح و ترجمہ، مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمۃ کے 744 فتاوی کی ترتیب و تعلیق، سلسلہ ملتانیہ کے تین بزرگوں کا عارفانہ کلام‘‘ صحن وحدت کی ترتیب و تدوین آپ کی طویل علمی و ادبی خدمات پر گورنر آف سندھ بیگم رعنا لیاقت علی خاں نے آپ کو اکیڈیمک ایوارڈ بھی دیا۔٭