اب راجستھان نشانہ پر ؟

   

مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے چھ سال میں بی جے پی پر کئی مرتبہ اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو زوال کا شکار کرنے پیسے اور اقتدار کی طاقت کا استعمال کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ ان الزامات کو تقویت بخشنے والی مثالیں بھی موجود ہیں۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی نے پچھلے دروازے سے اقتدار پر قبضہ کیا اور عددی طاقت نہ رہنے کے باوجود بھی توڑ جوڑ اور پیسے کی طاقت کی بنیاد پر اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ جہاں اسے ریاستی عوام نے مسترد کردیا تھا اور دوسری جماعتوں کو اقتدار سونپا تھا وہاں بھی بی جے پی نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ عوام کے فیصلے کو بھی اپنے پیسے اور اقتدار کی طاقت کے بل پر بدلنے کی کوشش کی اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو خرید کر وہاں کی منتخبہ حکومتوں کو زوال کا شکار کیا اور پھر سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے اپنی حکومتیں قائم کرلیں ۔ اس کی حال ہی میں دو ریاستوں میں مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ سب سے پہلے کرناٹک کو نشانہ بنایا گیا ۔ وہاں کمارا سوامی زیر قیادت حکومت کو ارکان اسمبلی کو خرید کر ‘ استعفی دلوا کر زوال کا شکار کردیا ۔ خود توڑ جوڑ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پھر ضمنی انتخابات میں تمام باغی ارکان کو ٹکٹ دے کر دوبارہ ایوان کیلئے منتخب کروانے کی کوشش کی ۔ کچھ دوبارہ منتخب بھی ہوئے اور کچھ شکست کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اسی طرح کا کھیل مدھیہ پردیش میں کھیلا گیا ۔ کانگریس کے ایک بھروسہ مند اور سینئر لیڈر جیوتر آدتیہ سندھیا کو جھانسے میں ڈال کر ان کے حامی ارکان اسمبلی کو توڑا گیا ۔ ایوان کی رکنیت سے استعفی دلوایا گیا اور پھر عددی طاقت میں الٹ پھیر کرتے ہوئے بی جے پی نے وہاں بھی اقتدار حاصل کرلیا ۔ یہ دونوں ریاستیں ایسی ہیں جہاں عوام نے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا تھا لیکن بی جے پی نے جمہوریت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وہاں پچھلے دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ بی جے پی کے منصوبے یہیں رکنے نہیں ہیں بلکہ اب وہ راجستھان کو نشانہ بنانے کی کوششیں شروع کرچکی ہے ۔ یہ الزام کوئی اور نہیں بلکہ خود چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ نے لگایا ہے ۔
اشوک گہلوٹ کا یہ الزام سیاسی چال تک محدود نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی کے کئی قائدین ایک سے زائد مواقع پر اشارے دے چکے تھے کہ پہلے کرناٹک ‘ پھر مدھیہ پردیش اور پھر راجستھان میں حکومتوں کو زوال کا شکار کرکے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا جائیگا ۔ مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات کی شکست کے بعد شیوراج سنگھ چوہان نے واضح کیا تھا کہ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔ ان کے اس جملے میں بہت کچھ سیاسی راز پوشیدہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مرکز میں حکومت دوبارہ قائم کرنے کے بعد ایک سازش کے تحت وہاں عوام کی منتخبہ حکومت کو زوال کا شکار کیا گیا تھا ۔ اب راجستھان میں بی جے پی نے ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر مشن کنول شروع کرچکی ہے ۔ اس مشن کے تحت بدعنوانیوں سے جمع کی گئی رقومات یا پھر حواری کارپوریٹس کی مدد سے ارکان اسمبلی کو بھاری رشوتیں دی جارہی ہیں اور انہیں اپنی پارٹی اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفوں کیلئے خریدا جا رہا ہے تاکہ اعداد و شمار کے نیچے اوپر ہونے سے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوجائے ۔ ضمنی انتخاب میں سرکاری مشنری اور پھر دوبارہ دولت کا استعمال کرتے ہوئے ان کو کامیاب کروانے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ کرناٹک میں وہی کچھ کیا گیا ۔ مدھیہ پردیش میں بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا گیا اور اب اسی منصوبہ کو ایسا لگتا ہے کہ راجستھان میں بھی نافذ کیا جا رہا ہے ۔
ایک ایسے وقت جبکہ ساری دنیا کورونا سے مقابلہ کر رہی ہے ۔ ہندوستان بھی دنیا کا چوتھا سب سے شدید متاثرہ ملک ہوگیا ہے ۔ تین لاکھ سے زیادہ کورونا متاثرین ملک میںہیں۔ ہزاروں کی موت واقع ہوچکی ہے ایسے میں کورونا وباء پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کی بجائے بی جے پی اپنے سیاسی کھیل کو در پردہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کھیل کیلئے پیسے اور مرکز کے اقتدار کی طاقت کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس سے جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ عوام کے فیصلوں کو مذاق بناکر رکھ دیا گیا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مرکز میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے بی جے پی کو سارے ملک کی ریاستوں کی عوامی منتخبہ حکومتوں کو کسی بھی وقت زوال کا شکار کرنے اور خود اقتدار پر قابض ہونے کا لائسنس مل گیا ہے ۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے اور بی جے پی کو اس سے گریز کرنا چاہئے ۔