اترپردیش میں فیض احمد فیض کے کتابوں کی مانگ میں اضافہ

,

   

لکھنو۔پاکستان کے ممتاز شاعرفیض احمد فیض کی تاریخی نظم ”ہم دیکھیں گے“ پر تنازعہ نے ادبی دنیا میں جہاں ہلچل مچادی ہے وہیں‘ مشہور شاعر کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے اس نے نوجوان نسل کی مدد بھی کی ہے۔ طلبہ اور پیشہ وارانہ نوجوان فیض کی کتابوں کی مانگ کررہے ہیں‘ ان کی سوانح مانگ رہے ہیں‘ ان کی نظموں اور کتابوں کی مانگ کررہے ہیں‘ کتاب فروش فیض کی کتابوں کی سپلائی کے لئے ارڈر کررہے ہیں۔

لکھنو کے حضرت گنج میں کتابوں کی ایک بڑے دوکاندار نے کہاکہ ”ماضی میں بڑی مشکل ماہ میں ایک کتاب ہم فیض پر فروخت کرتے تھے مگر اس تنازعہ کے بعد لوگ بے چینی کے ساتھ شاعر اور ان کی نظموں کے متعلق جانکاری حاصل کرنا چاہا رہے ہیں۔ہم فیض احمد فیض پر تمام ادبی کتابوں کا ارڈر دیا ہے“۔

مذکورہ کتب فروش نے کہاکہ دیوانگری اسکرپٹ میں لکھی ہوئی کتابوں کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔ایک کتاب فروش نے کہاکہ ”زیادہ تر نوجوان نسل اُردو لکھنے پڑھنے سے قاصر ہے لہذا ہم دیوانگری کو ترجیح دے رہے ہیں“۔

کانپور میں جاری ہینڈلوم ایکسپو میں زیادہ تر بک اسٹالس پر اسٹاک ختم ہوگیا ہے اور فیض کی کتابوں کے لئے یہاں پر بڑا ہجوم ہے۔

کانپور میں بی ایڈ کی ایک طالب علم سوچیتا سریواستو نے کہاکہ”میں اُردو شاعری پر زیادہ توجہہ نہیں دیتی کیونکہ یہ زبان بہت حد تک میری سمجھ سے قاصر ہے مگر تنازعہ کے بعد میں چاہتی ہوں کہ فیض کی نظمیں پڑھوں اور سمجھوں‘ وہ کہنا کیاچاہتے ہیں۔

میں اُردو کے مشکل الفاظ کو سمجھنے کے لئے گوگل کا سہارا لے رہی ہوں“۔

چندرشیکھر آزاد اگریکلچر او رٹکنالوجی یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم کرشنا راؤ نے کہاکہ کیونکہ فیض پر کتابیں دستیاب نہیں ہیں تو انہوں نے ایک قدیم ایڈیشن کا ارڈر دیاتھا جس کا وہ مطالعہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”ان کی نظموں کا مطالعہ دراصل نقطہ نظر کو وسیع کرتا ہے‘ بالخصوص ان اوقات کے سیاق وسباق کا آپ جائزہ لیں جس میں انہوں نے ان نظموں کو لکھا ہے“