اترپردیش کی سیاست اور بی ایس پی

   

ملک میں پارلیمانی انتخابات کا بگل بجنے کیلئے اب محض کچھ ہی وقت باقی رہ گیا ہے اور ایسے میں اترپردیش پر ساری توجہ مرکوز ہونے لگی ہے ۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہونے کے علاوہ سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ سیاسی اعتبار سے سب سے اہم ریاست بھی سمجھی جاتیہ ے ۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گذرتا ہے ۔ شائد یہی وجہ رہی کہ بی جے پی نے ہمیشہ ہی اترپردیش پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے ۔ اترپردیش کے ماحول ہی کو سب سے زیادہ فرقہ وارانہ کردیا گیا ہے اور وہیں سب سے زیادہ زہر گھولا گیا ہے ۔ بی جے پی فرقہ پرستانہ منافرت پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور یہی اس کا اکثر ایجنڈہ رہا ہے ۔ اترپردیش میں ایسا نہیں ہے کہ صرف بی جے پی کا راج ہے بلکہ علاقائی جماعتوں کی اپنی بھی اہمیت رہی ہے اور یہ وقفہ وقفہ سے عوام کی تائید حاصل کرنے اور اقتدار پارنے میں کامیاب بھی رہی ہیں۔ اب جبکہ پارلیمانی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے اترپردیش کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہونے لگا ہے اور وہاں سیاسی سرگرمیاں بھی در پردہ تیز ہونے لگی ہیں۔ بی جے پی نے 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی انڈیا اتحاد کو ساتھ لے کر ریاست میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اب بی ایس پی سربراہ مایاوتی بھی سرگرم ہونے لگی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہونے پائے اور مرکز میں ایک اتحادی اور مخلوط حکومت قائم ہوسکے ۔ مایاوتی کا احساس ہے کہ اس صورتحال میں ان کی پارٹی اپنے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتی ہے ۔ مایاوتی کے سیاسی گرو کاشی رام کا بھی ہمیشہ سے یہ کہنا رہا تھا کہ جب تک بہوجن سماج کو اقتدار نہ مل جائے مرکز میں کمزور حکومت قائم ہونی چاہئے مضبوط اور مستحکم حکومت نہیں بننی چاہئے ۔ مایاوتی ایسا لگتا ہے کہ اب اسی لائین پر کام کر رہی ہیں۔
کاشی رام کے تعلق سے بھی کہا جاتا تھا کہ وہ سیاسی طور پر موقع پرست ہیں اور مایاوتی بھی اسی سوچ کی حامل ہیں۔ مایاوتی نے اترپردیش کی سیاست میں انہیں ملنے والے ایک سے زیادہ سیاسی مواقع سے ہمیشہ ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ مایاوتی نے اترپردیش میں تقریبا ہر جماعت سے اتحاد کیا ہے ۔ انہوں نے آنجہانی ملائم سنگھ یادو کے ساتھ اتحاد کی شروعات کی تھی ۔ پھر وہ وقفہ وقفہ سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتی رہی ہیں۔ کئی مواقع پر اتحاد کرتے ہوئے انہوں نے چیف منسٹر کا عہدہ بھی حاصل کیا ۔ بعد میں یہ اتحاد برقرار نہیں رہ پایا تھا ۔ کبھی بی جے پی کو مایاوتی پر بھروسہ نہیں رہ گیا تھا تو کبھی مایاوتی بی جے پی کے عزائم اور منصوبوں سے شبہات کا شکار تھیں۔ یہی وجہ رہی کہ وہ بی جے پی کے ساتھ زیادہ طویل اتحاد یا دیرپا مفاہمت نہیں کرپائیں۔ اس کے علاوہ مایاوتی نے اترپردیش میں کانگریس کے ساتھ بھی اتحاد کیا تھا ۔ وہ بھی ناکام رہا ۔ مایاوتی نے دوبارہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا ۔ اکھیلیش یادو اور مایاوتی نے اس اتحاد کی خوب تشہیر بھی کی تھی تاہم یہ اتحاد بھی مایاوتی کے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا ۔ مایاوتی گذشتہ دو تا تین سال سے ایک طرح سے خاموشی اختیار کی ہوئی تھیں۔ وہ زیادہ کچھ عوامی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہی تھیں۔ اب وہ ایک بار پھر آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے سرگرم ہو رہی ہیں اور ان کا منصوبہ ہے کہ کسی طرح سے انڈیا اتحاد میں انہیں بھی جگہ مل جائے تاکہ کچھ نشستیں حاصل کرسکیں۔
سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر بنتا ہے کہ مایاوتی عدم توازن اور عدم استحکام کی علمبردار ہیں۔ سماج اور سیاسی کام کاج میں استحکام کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ایک سے زائد مواقع پر اپنے موقف سے بی جے پی کو بالواسطہ طور پر بڑا فائدہ پہونچا چکی ہیں۔ ان کی بی جے پی سے در پردہ مفاہمت کے شبہات بے بنیاد نہیں ہوسکتے ۔ ایسے میں وہ ایک بار پھر شائد بی جے پی کو اس کے عزائم میں کامیاب بنانے سرگرم ہونے لگی ہیں۔ اترپردیش کے عوام کیلئے ضروری ہے کہ وہ مایاوتی کے سابقہ ریکار ڈکے مطابق فیصلہ کریںا ور اپنے نمائندہ کا انتخاب کرتے ہوئے سیاسی شعور اور فہم و فراست کا ثبوت دیں۔