اسد اویسی کو مسلم مسائل سے زیادہ کے ٹی آر کی فکر: محمد علی شبیر

   

مسلم قیادت کا چاپلوسی کا رویہ ، بی جے پی کی تائید پر کے سی آر سے سوال کیوں نہیں؟
حیدرآباد ۔ 28 ۔ اگست (سیاست نیوز) سابق وزیر محمد علی شبیر نے صدر مجلس اسد اویسی پر حکومت کی چاپلوسی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ مسلمانوں کے مسائل کو فراموش کرتے ہوئے اسد اویسی ، کے سی آر اور کے ٹی آر کی چاپلوسی اور خوشامد کر رہے ہیں ۔ تلنگانہ کابینہ میں کے ٹی آر کی واپسی سے متعلق اسد اویسی کے ٹوئیٹر پر ریمارک اور اس کے جواز میں کے ٹی آر کا شکریہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں سیاسی مقصد براری کے لئے گٹھ جوڑ ہے اور دونوں کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ اگر کابینہ میں کے ٹی راما راؤ شامل نہ ہوں تو اس سے عوام کو کیا فرق پڑے گا۔ صدر مجلس کو کے ٹی آر کی شمولیت سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ صدر مجلس نے ٹی آر ایس کے مخالف مسلم موقف پر کبھی سوال نہیں اٹھایا ۔ پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ بل کی ٹی آر ایس نے تائید کی۔ اس کے علاوہ کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی کی ٹی آر ایس نے مکمل تائید کی جبکہ یہ دونوں مسائل مسلمانوں سے متعلق ہے لیکن صدر مجلس کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کے سی آر سے اس بارے میں سوال کرتے ۔ مرکز نے ہر مسئلہ پر بی جے پی کی تائید کرنے والی ٹی آر ایس سے اپنی دوستی کو برقرار رکھنے والے صدر مجلس مسلمانوں کو وضاحت کریں کہ آخر اس دوستی میں مسلمانوں کا کیا فائدہ ہے؟ صدر مجلس کے ٹی آر کی ٹوئیٹر پر جگل بندی کو عوام دیکھ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ٹی آر ایس کی چاپلوسی کرنے والی قیادت کو مسلمان سبق سکھائیں گے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ صدر مجلس کے ٹی آر کی کابینہ میں شمولیت کی سفارش کرنے کے بجائے کے سی آر اور کے ٹی آر کی توجہ شہر میں وبائی امراض کی جانب مبذول کراتے۔ وبائی امراض سے ہزاروں افراد متاثر ہیں اور سرکاری دواخانوں میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر اور ان کے فرزند کو اپنی خیالی دنیا سے باہر نکل کر جھوٹے دعوؤں سے گریز کرنا چاہئے ۔ حیرت کی بات ہے کہ چیف منسٹر وبائی امراض کے مسئلہ پر ایک بھی جائزہ اجلاس منعقد نہیں کیا ۔ حالانکہ ریاست میں ہیلت ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ جسے دولتمند ریاست کہا جاتا ہے ، وہاں نیلوفر ہاسپٹل میں ایک بیڈ پر چار بچوں کو رکھا گیا ہے۔ یہ صورتحال حیدرآباد میں طبی سہولتوں کے فقدان اور حکومت کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے ۔ انہوں نے چیف منسٹر اور ان کے فرزند سے سوال کیا کہ کیا انہیں بچوں کی اموات کا انتظار ہے جو وہ وزیر صحت کو بھی سرکاری دواخانے بھیجنے سے گریز کر رہے ہیں۔