اسرائیل کو روکنا دنیا کی ذمہ داری

   

اسرائیل کی غنڈہ گردی نے اب انتہائی شدت اختیار کرلی ہے اور وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیںصفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں شروع کرچکا ہے ۔ نہتے فلسطینی عوام اسرائیل کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے خلاف سینہ تانے کھڑے ہیں اور اپنے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔ ساری دنیا نے اس مسئلہ پر مجرمانہ غفلت اختیار کی ہوئی ہے ۔ فلسطین میں ہونے والی ہر غنڈہ گردی اور دہشت گردی میں دنیا کی یہ خاموشی برابر کی ذمہ دار ہے ۔ ساری دنیا اپنی خاموشی کے ذریعہ اسرائیل کی تائید و حمایت کر رہی ہے ۔ چند معمولی راکٹس اگر اسرائیل پر داغے جائیں اور کچھ یہودی زخمی ہوجائیں تو ہر کوئی اپنی بل سے باہر نکل آتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرتا ہے لیکن صیہونی اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کی نعشیں بچھائی جا رہی ہیں۔ راکٹس اور میزائیل داغتے ہوئے سارے فلسطین کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ درجنوں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے اس کے باوجود دنیا کے یہ نام نہاد انصاف پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اسرائیل کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا بھی اس معاملہ میں برابر کا مجرم اور ذمہ دار ہے کیونکہ وہ بھی اسرائیل کی جارحیت کو موثدر انداز میں پیش کرنے کے اپنے فریضہ سے انصاف نہیں کر رہا ہے ۔ آج اسرائیل نے اسی انٹرنیشنل میڈیا کو ہی نشانہ بناتے ہوئے غزہ میں ایک بلند عمارت کو تباہ کردیا جس میں بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر موجود تھے ۔ وہاں موجود عملہ کا کہنا ہے کہ صرف دو سکنڈ کے وقت میں سب کچھ تباہ ہوگیا ۔ میڈیا گھرانوں کو صرف دو سکنڈ کی اپنی تباہی نظر آ رہی ہے لیکن لاکھوں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انہیں نظر نہیں آ رہے ہیں اور نہ ہی وہ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ یہ خاموشی اسرائیلی مظالم میں ان کی حصہ داری کے برابر ہے اور نہتے فلسطینیوں کا جو ناحق خون بہایا جا رہا ہے اس سے بھی دنیا کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ دنیا کے یہی دوہرے معیارات ہیں جن کی وجہ سے صیہونی اسرائیل اپنی دہشت گردی کو مزید شدت سے آگے بڑھا رہا ہے ۔
اسرائیل نے غزہ شہر کو دوزخ بنادیا ہے ۔ مسلسل حملے کرتے ہوئے تباہی مچائی جا رہی ہے ۔ فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے ۔ معصوم بچے بھی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ حملے اور راکٹس و گرینیڈز کی آوازوں نے سارے فلسطینیوں کو خوفزدہ کردیا ہے ۔ اس کے باوجود انصاف پسندی کا دعوی کرنے اور انسانی حقوق کی علمبرداری دکھانے والے ممالک کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ اسرائیل نے غزہ پٹی سے اس جارحیت اور دہشت گردی کو اب مغربی کنارہ تک بھی وسعت دیدی ہے اور جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ معمولی نوعیت کی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مکمل جنگ ہے ۔ اس کے باوجودا قوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا کام ہی دنیا بھر میں جنگ کو ٹالنا اور امن کو قائم کرنا ہے بالکل خاموشی تماشائی بنا ہوا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ادارہ بھی صیہونی اور عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے ۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر ناچنے والا ادارہ ہے اور یہ اپنے قیام کے مقصد کی تکمیل تک کرنے کے موقف میں نہیں رہ گیا ہے ۔ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ چین ‘ روس اورا یسے ہی دوسرے بڑے اور طاقتور ممالک بھی اس معاملے میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کی شہادت پر لب کشائی کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اسرائیل کو روکنے کے اپنے فریضہ اور ذمہ داری کی تکمیل کیلئے آگے آ رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے اور تاریخ میں رقم ہوکر رہے گاکہ انہوںنے فلسطینیوں کی شہادت پر خاموشی اختیار کی تھی ۔
نہ صرف عالمی طاقتوں کا رول انتہائی افسوسناک ہے بلکہ عالم اسلام کا موقف اور ان کی بزدلی بھی قابل مذمت ہے ۔ جس طرح سے اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی اختیار کی گئی ہے اس کا عالم اسلام کو بھی حساب دینا ہوگا ۔ فلسطین کی مساجد سے اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ ان کی مدد کی جائے ۔ یہودی اسرائیل کو روکا جائے لیکن علاقہ کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں رہ گیا ہے جو اسرائیل کے خلاف آواز تک بلند کرسکے ۔ علاقہ کے عرب ممالک تو اسرائیل سے دوستی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ قبلہ اول اور فلسطین کی قیمت پر کیا جا رہا ہے ۔ ان سارے ممالک کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے اور ان سے امت واحدہ کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ سبھی مسلم حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کی دہشت گردی کو روکنے آگے آئیں۔ وہ اگر اب بھی حرکت میں نہ آئیں تو کوئی عجب نہیں کہ کل ان پر بھی یہی وقت آن پڑے ۔
اب تو اپنے بھی تنقید کرنے لگے
کورونا بحران نے نریندر مودی حکومت کی حد درجہ نا اہلی کو عوام کے سامنے اجاگر کردیا ہے ۔ سارا ملک دیکھ رہا ہے بلکہ بھگت رہا ہے کہ کورونا کے انتہائی سنگین بحران کے وقت میں بھی مودی حکومت سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کر رہی ہے ۔ عوام مر رہے ہیں۔ ایک ایک سانس کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ دواخانوں میں ایک بستر حاصل کرنے کیلئے گڑگڑا رہے ہیں اور ہر ایک معمولی سے مسئلہ پر احکام جاری کرنے اور عوام پر نت نئے بوجھ ٹیکس کی شکل میں عائد کرنے والی حکومت کا کہیں وجود نظر نہیں آ رہا ہے ۔ حکومت نے عوام کو حالات کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور ہر دن اور ہر وقت میڈیا میں اور سوشیل میڈیا پر چھائے رہنے والے مقبول ترین قائدین بھی عوامی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں اور کہیں بلوں میں جا چھپے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کے کٹر حامی اور سرپرست بھی ناراض ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دو دن قبل حکومت کی چاپلوسی میں شہرت رکھنے والے اداکار انوپم کھیر نے حکومت کے غلط فیصلوں اور نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے سوشیل میڈیا میں رائے کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ حکومت نے غلطیاں کی ہیں۔ اب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پہلی لہر کے بعد لاپرواہی سے کام لیا گیا جس کے نتیجہ میں دوسری لہر نے شدت اختیار کی ہے ۔ حالانکہ موہن بھاگوت نے صرف حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ انتظامیہ اور عوام پر بھی لاپرواہی کا الزام عائد کیا لیکن حکومت کو اس میں شامل کرنا بھی حکومت کی ناکامیوں کا ثبوت ہے ۔ اب تک حکومت پر اس کے اپنے ہی تنقیدیں کرنے لگے ہیں تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔