اسکولس بند ، طلبہ پر ذہنی تناؤ کا خدشہ، بچوں میں ڈسپلن پیدا کرنا لازمی ، ماہرین کا اظہار خیال

   

حیدرآباد۔اسکولوں کے طویل مدت تک بند رہنے سے بچوں میں ذہنی امراض اور تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی نشو نماں کے دوران ان کی توجہ اور سرگرمیوں پر توجہ دیتے ہوئے انہیں متحرک رکھنے کے علاوہ ڈسپلن کا پابند بنانے کی کوشش کی جا تی ہے اور وہ اسکول کے ماحول میں سب سے اہم ڈسپلن سیکھتے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کے سبب اسکولوں کے بند ہونے کے سبب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بچوں میں توجہ کی کمی اور متحرک ذہنی نشونماں کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اسی لئے انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے جوڑے رکھنے کے علاوہ ان میں ڈسپلن پیدا کرنے پربھی توجہ مرکوز کی جانا ضروری ہے۔ ماہر اطباء جو کہ ذہنی تناؤ اور بچوں کی نشونماں میں ریکارڈ کی جانے والی تبدیلیوں میں مہارت رکھتے ہیں ان کا کہناہے کہ بچوں میں ڈسپلن کی کمی کے ساتھ توجہ دہانی کے رجحان میں کمی ریکارڈ کی جانے لگتی ہے اور اس کے سبب وہ اختلاج کی کیفیت کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں جو انہیں متحرک سرگرمیوں میں حصہ لینے سے دور کرنے لگتا ہے۔اسکول میں طلبہ میں ڈسپلن کے ساتھ ان کے عادات و اطوار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پر خصوصی نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ مختلف عادات و اطوار کے بچوں کے درمیان ہوتے ہیں اسی لئے ان کے درمیان تعلقات کے ذریعہ ان کی ذہنی نشونماں کا اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے تاہم لاک ڈاؤن کے سبب انہیں جو یکساں ماحول دستیاب ہورہا ہے وہ ان کی ذہنی نشونما کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور ان میں روایتی سرگرمیوں کے رجحان میں کمی کے باعث توجہ دہانی کا عنصر کمزور پڑتا جاتا ہے۔ہندستان میں توجہ دہانی میں کمی اور متحرک سرگرمیوں کے انتشار کی کیفیت کا شکار طلبہ کی تعداد 7تا11فیصد ریکارڈ کی گئی ہے لیکن اب جبکہ لاک ڈاؤن میں تمام طلبہ تعلقات اور معمول کی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہیں تو ایسی صورت میں اس میں اضافہ کا خدشہ ہے۔طلبہ کوذہنی انتشار کی کیفیت سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں معمول کی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے علاوہ انہیں کھیل کود کی سرگرمیوں مبتلاء رکھنا ناگزیر ہے تاکہ وہ ذہنی انتشار اور توجہ میں کمی کی شکایات کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی ان میں متحرک سرگرمیوں کے رجحان میں کمی آئے۔