اعظم خان نشانہ پر

   

لیتے ہیں انتقام سیاست کی آڑ میں
اقدار اور اُصول کتابوں میں رہ گئے
اعظم خان نشانہ پر
سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اعظم خان ان دنوں بی جے پی کے نشانہ پر ہیں۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اور یو پی کی آدتیہ ناتھ کی حکومت اعظم خان کو حاشیہ پر لانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے ۔ کوئی کسر باقی رکھے بغیر مسلسل ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتیں رامپور لوک سبھا حلقہ سے اعظم خان کی کامیابی کو اب تک قبول نہیں کرپائی ہیں۔ ہضم نہیں کرپا رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف نت نئے انداز سے مقدمات کا اندراج کیا جا رہاہے ۔ انہیں لینڈ مافیا قرار دیدیا گیا ہے ۔ ایک ماہ میں ان کے خلاف 27 ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یونیورسٹی کی لائبریری پر چھاپہ مارا گیا اور وہاں سے نادر کتب وغیرہ کو ضبط کیا گیا ہے ۔ ان کے خلاف مزید کارروائیوں کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کی اس طرح کی مخاصمت پر مبنی کارروائیوں کی مخالفت کرنے پر ان کے فرزند کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ۔ انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ لوک سبھا میں اعظم خان کے ایک بیان کو غیر ضروری متنازعہ رنگ دیدیا گیا ۔ انہیںمعذرت خواہی کیلئے مجبور کیا گیا اور کچھ گوشوں کی جانب سے ان کی لوک سبھا کی رکنیت کو ختم کرنے کے مطالبات کئے گئے تھے ۔ ان مطالبات سے یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ پارٹی اعظم خان کی لوک سبھا کیلئے رکنیت کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ ایک جمہوری ڈھانچہ میں ایک عوام کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ کے رکن کے خلاف حکومتوں کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ جو الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ حکومت اس سے اختلاف کرنے والی کسی بھی آواز کو قبول کرنے یا برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے وہ اس طرح کے رویہ سے درست ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ اعظم خان کی جانب سے بنائی گئی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی حکومت کی آنکھوں میں چبھنے لگی ہے ۔ وہ حصول تعلیم کے ادارہ کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے وہ بھی محض اس لئے کیونکہ یہ ایک مسلم لیڈر کے نام پر بنائی گئی ہے اور اس کے بنانے والے بھی مسلم لیڈر اعظم خان ہیں۔
اعظم خان کے خلاف لینڈ گرابنگ کے جو مقدمات درج کئے گئے ہیں وہ انہیں اراضیات سے متعلق ہیں جو مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی تعمیر اور قیام کیلئے حاصل کی گئی تھیں۔ ان کے خلاف جو شکایات درج کی جارہی ہیں وہ کوئی پہلے سے زیر التواء نہیں ہیں جب سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی یا پھر دو سال قبل بی جے پی حکومت قائم ہوئی تھی ۔ یہ الزامات اب نئے عائد کئے جا رہے ہیں اور کسانوں کو استعمال کرنے کے شبہات بے بنیاد نہیں ہوسکتے ۔ کسانوں کے ذریعہ اعظم خان کے خلاف شکایات درج کرواتے ہوئے انہیں یو پی حکومت کی سرکاری پورٹل پر لینڈ مافیا قرار دیدیا گیا ہے اور اس بات کا تک خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ ایک عالیشان یونیورسٹی قائم ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں کا جال بچھاتے ہوئے غریب عوام اور با صلاحیت بچوں اور نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ جو کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں ان کو اعظم خان اپنے حصے کی ذمہ داری بناتے ہوئے پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شائد یہی کوشش یو پی کی آدتیہ ناتھ حکومت اور مرکز کی نریندرمودی حکومت کو برداشت نہیں ہو پا رہی ہے اسی وجہ سے وہ اعظم خان کو نشانہ بنانے کے درپہ تلے ہوئے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اعظم خان کے خلاف جتنے بھی مقدمات درج کئے گئے ہیں ان میں بیشتر کی نوعیت سیاسی ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ سیاسی مخاصمت کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ مقدمات واجبی بھی ہوں لیکن ملک کے بیشتر سیاستدان ایسے ہیں جن کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں لیکن انہیں تمام تر سرکاری مراعات عطا کی جاتی ہیں۔ کسی کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کردیا جاتا ہے تو کوئی سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے پارلیمنٹ کیلئے منتخب کروالئے جاتے ہیں۔ جہاں کچھ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہوں اور تعلیمی ادارہ کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہو وہاں حکومتیں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتی ہیں جس سے حکومت کے ارادوں اور نیتوں کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ حکومت کو سیاسی مخاصمت اور انتقامی جذبہ کو ترک کرکے مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔