افغانستان میں امریکہ کی موجودگی ، چین ناراض

   

ایم کے بھدرا کمار
افغانستان میں امریکہ کی موجودگی یا پھر امریکی فوج کے عدم تخلیہ پر سب سے زیادہ اگر کسی کو فکر ہے تو وہ چین ہے، جبکہ ایران بھی علاقہ میں امریکی فورسیس کی موجودگی سے پریشان دکھائی دیتا ہے۔ چین اور ایران یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ اس علاقہ میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے۔ خاص طور پر افغانستان سے اس کے رخصت ہونے کا وقت آچکا ہے۔ اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ امریکی فورسیس کی افغانستان سے واپسی یا تخلیہ کے بارے میں کوئی قطعی اعلان کرنے سے گریز کررہا ہے۔ افغانستان میں امریکی فورسیس کی موجودگی سے چین نہ صرف پریشان ہے بلکہ امریکہ سے ناراض بھی ہے۔ اگر ہم افغانستان میں امریکہ کی زیرقیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حقیقی ایجنڈہ ایک کھلا راز ہے۔ اس جنگ کے پہلے جغرافیائی و سیاسی کردار کا اشارہ اس وقت ہی مل گیا تھا جب 2002-03ء میں کابل میں ایک موافق امریکی حکومت بنائی گئی کیونکہ پنٹگان (امریکی محکمہ دفاع) کسی بھی طرح اپنے وسطی ایشیائی فوجی اڈوں کے تخلیہ کے موڈ میںنہیں تھا۔ بالآخر وادی فرغانہ (وسطی ایشیا کی یہ ایک عظیم وادی ہے جو ازبیکستان، کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان واقع) کے اندیجان میں مئی 2005ء کے دوران عسکریت پسندوں کی خون ریز شورش نے روس اور چین کو اس بات پر آمادہ کیا کہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں ان فوجی اڈوں سے امریکہ کے اخراج کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ تاہم عوامی مباحث میں روس اور چین نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کر رکھی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ماسکو نے حالیہ برسوں کے دوران کم ہی کہا لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ امریکہ، عراق اور شام سے آئی ایس آئی ایس جنگجوؤں کو افغانستان میں منتقل کررہا ہے۔ اس مسئلہ کو روس نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے علم میں بھی لایا ہے لیکن چین زیادہ تر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
اسی طرح نومبر 2020ء میں چینی کیبل نیٹ ورک CGTN میں ایک کمنٹری پیش کی گئی جس کا عنوان ہی ’’امریکی فورسیس کے افغانستان سے تخلیہ کیلئے چین کے داخلی اُمور میں مداخلت ختم کرنے کی ضرورت ہوگی‘‘ تھا۔ اس کمنٹری کا اختتام ایک اہم پیش قیاسی کے ساتھ ہوا جس میں کہا گیا کہ طالبان کو امید ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طئے پائے معاہدہ کا احترام کریں گے لیکن کمنٹری میں ہنوز یہ سوال چھوڑ دیا گیا کہ افغانستان امریکہ کے حقیقی اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ ایک بات ضرور ہے کہ اگر امریکہ، افغانستان سے باوقار انداز میں باہر نکلنا چاہتا ہے تو اسے چین کے داخلی امور میں مداخلت کی روش ترک کرنی ہوگی۔ دوحہ معاہدہ میں امریکی فورسیس کے افغانستان سے تخلیہ کی مدت یکم مئی مقرر کی گئی ہے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے یکم مئی کے بعد بھی اپنی فورسیس کو افغانستان میں رکھنے کا متنازعہ فیصلہ لیا ہے۔ ایسے میں بیجنگ کا فکر میں مبتلا ہونا لازمی ہے۔ جمعرات کو اپنے ریمارکس میں بائیڈن نے افغانستان میں امریکی فورسیس کے جاریہ سال کے اواخر تک رہنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں ایک طویل وقت تک اپنی فورسیس کو ٹھہرائے رکھنا میرا ارادہ نہیں ہے۔ جبکہ ان سے خاص طور پر یہ دریافت کیا گیا کہ آیا امریکی فورسیس آئندہ سال بھی افغانستان میں رہیں گی؟ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس سوال کو ٹال دیا کہ موجودہ حالات میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے اس اہم سوال کو استعاری جملہ استعمال کرتے ہوئے ٹال دیا۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی اقتدار کی راہداریوں کے طاقتور و بااثر اداروں اور قانون سازوں کی یہی رائے ہے کہ افغانستان میں ’’ہمیشہ کیلئے جنگ‘‘ ختم نہ کی جائے یعنی بااثر و طاقتور ادارے اور قانون ساز افغانستان میں امریکی جنگ ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ اس ضمن میں کئی باتیں کی جارہی ہیں، بناوٹی باتیں اور بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ امریکہ کو چاہئے دہشت گرد عناصر کے خلاف قطعی فتح حاصل کرے اور سب سے پہلے افغانستان کی سلامتی و استحکام کو یقینی بنائیں۔ جنگ و جدال میں اکثر خواتین کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں۔ ان کے حقوق کو بحال کیا جائے۔ ساتھ ہی اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی دہشت گرد گروپ پھر کبھی افغانستان کے باہر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام نہ دے سکے۔ امریکہ کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان میں خانہ جنگی کے حالات دوبارہ پیدا ہونے نہ دے۔ بہرحال امریکہ کے بعض ناٹو حلیفوں نے بھی اس رائے کی تائید و حمایت کی ہے۔
جہاں تک عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی سربراہی کا سوال ہے ہے سی آئی اے اس تعلق سے ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ وہ برسوں سے عسکریت پسندوں کو ہتھیار فراہم کررہی ہے۔ سی آئی اے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ برسوں سے ایغور جنگجوؤں اور روس کے قفقاص کے چیچن باشندوں کی بھرتی اور تربیت کا کام کررہی ہے۔ وہ ان تمام کو مستقبل میں چین، وسطی ایشیا اور روس میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ شام میں بھی سی آئی اے نے آئی ایس آئی ایس کو استعمال کیا۔ القاعدہ کی مدد بھی سی آئی اے نے کی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں امریکہ کیلئے مصیبتیںکھڑی ہوگئیں۔ عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی سربراہی سابق صدر بارک اوباما کی ناک کے نیچے عمل میں آئی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے نائب اور موجودہ صدر جوبائیڈن کو چین و روس کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے متعلق پراجیکٹ کا سب سے پہلے علم تھا۔ شاید انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آخر افغانستان، پینٹگان کی علاقائی حکمت عملی میں ہنوز ناقابل تلافی کیوں ہے۔ ژنجیانگ کی سرحد پر امریکی فورسیس کی موجودگی سے یقینا افغان امن مساعی پر اثرات مرتب ہوں گے جو آنے والے دنوں میں دکھائی دیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیجنگ کی جانب سے سکیورٹی کے بارے میں جو خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، اسے دور کرنے میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کا انحصار دراصل پاکستان کے موقف اور افغان امن مساعی پر ہے۔ پیچیدہ افغان امن مساعی میں جو نئی بات ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ وہ انسانی طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف ایران ، افغانستان میں امریکہ کے رہنے سے فکرمند ہے اور چوکسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ گزشتہ ہفتہ افغان فوجی ہیلی کاپٹر پر لیزر گائیڈیڈ میزائل حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں کئی افغان فوجی عہدیدار مارے گئے۔ اس حملے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ موافق ایران ملیشیا کی کارستانی تھی، یہ دراصل امریکی فوج کو ایک انتباہ ہے۔