الیکشن اور اشتعال انگیز بیان بازیاں

   

ہرگام اندھیرے ہیں اب صبح کی صورت کیا ہوگی
یہ دورِ قیامت کیا کم ہے اب اور قیامت کیا ہوگی
جیسے جیسے انتخابات کا عمل تیز ہوتا جا رہا ہے اور پولنگ کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے ویسے ویسے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے حالات کو بگاڑنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ انتخابات کو جمہوری طریقے سے لڑنے اور عوام میں پہونچ کر ان سے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی بجائے اب چونکہ کئی امیدواروں کو اور خاص طور پر بی جے پی کو مشکل صورتحال کا اندازہ ہوگیا ہے تو ایک بار پھر اشتعال انگیز بیان بازیاں اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ویسے بھی یہ معمول ہوگیا ہے کہ انتخابات کے موسم میں بی جے پی کے تقریبا تمام چھوٹے اور بڑے قائدین اشتعال انگیز اور مذہبی منافرت پھیلانے والے بیانات دیتے ہیں۔ چونکہ ان کے خلاف کوئی قرار واقعی کارروائی نہیں ہوتی اور وقتی طور پر کوئی نوٹس جاری کرتے ہوئے چھوڑ دیا جاتا ہے تو ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ اب تک مسلمانوںاوردیگر اقلیتوںکو نشانہ بنانے والی بی جے پی کے قائدین اب مسلمانوں اور سکھ برادری کی عبادتگاہوں کو بھی نشانہ بنانے لگے ہیں۔ یہ عبادتگاہیں بھی انہیں کھٹکنے لگی ہیں۔ راجستھان میں ایک بی جے پی لیڈر نے اپنی پارٹی کے امیدوار کے حق میں تقریر کرتے ہوئے یہ زہر اگلا کہ مقامی سطح پر مساجد اور گردواروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور انہیں اکھاڑ پھینکنا چاہئے ۔ الیکشن کے موقع پر یہ اشتعال انگیزی کچھ حد سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ راست یا بالواسطہ طور پر مسلمان یا دوسری اقلیتوں کو نشانہ بنانے کاسلسلہ تو عرصہ دراز سے جاری ہی ہے لیکن اس طرح راست عبادتگاہوں کو اکھاڑ پھینکنے کی بات موجودہ وقت کی نزاکت کے اعتبار سے کچھ زیادہ ہوگئی ہے ۔ ایسے میں حالانکہ بی جے پی کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کی گئی لیکن ان سے ایک دکھاوے کی معذرت خواہی کروائی گئی ہے جسے اقلیتی برادریاں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بی جے پی کے اعلی قائدین کی جانب سے بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی یا مذمتی بیان نہیں دیا گیا ۔اس طرح بی جے پی نے بالواسطہ طور پر ان کے خیال سے اتفاق کیا ہے کیونکہ سر عام ان کی سرزنش سے گریز کیا گیا ہے ۔
جیسے جیسے پولنگ کا وقت قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے بی جے پی کی بے چینیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی کو مختلف سرویز اور رپورٹس سے اپنی شکست واضح طور پر نظر آنے لگی ہے ۔ لوگ کھلے عام بی جے پی کے خلاف رائے ظاہر کر رہے ہیں۔ اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے یہ کھیل شروع کیا ہے ۔ حالانکہ کچھ بناوٹی سروے تیار کرواتے ہوئے گودی میڈیااور تلوے چاٹنے والے اینکرس کے ذریعہ بھی ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ کوششیں ثمر آور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں تو پرانی روایات کو بحال کیا جا رہا ہے اور سماج میں منافرت پھیلانے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے اس طرح کے کھیل بی جے پی اکثر کھیلتی رہی ہے ۔ جس ریاست میں انتخبات ہوتے ہیں وہاں اقلیتوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز بان بازیاں عروج پر پہونچ جاتی ہیں۔ گذشتہ کچھ وقت سے اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کو یہ موقع دئے بغیر عوامی مسائل کو موضوع بحث بنانے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی ہے اور اس کے نتائج بی جے پی کی شکست کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور اس کے قائدین زہر اگلنے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انہیں ایک نوٹس جاری کردی ہے لیکن ان کے خلاف دو فرقوں میں منافرت پھیلانے کا مقدمہ پولیس میںدرج ہونا چاہئے ۔ سیاسی مفادات اپنی جگہ لیکن سماج میں نفرت گھولنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو اور کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو۔
جن ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں ان کے اور سارے ملک کے عوام کو اس معاملے میں سمجھ بوجھ اور اپنے شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے وال کبھی ملک اور قوم ک دوست نہںہوسکت ۔ ہ مفاد پرست عناصر اپن ادنی سے سیاسی فائدہ کیلئے حالات کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کو عوام اپنے ووٹ سے مسترد کردے اور انہیں یہ سبق سکھائے کہ مثبت سوچ کے ساتھ انتخابات میں مقابلہ کرنا چاہئے اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائیگا ۔