الیکشن کمیشن کی سرزنش

   

شدید دھوپ میں تپ کر وہ ہوگیا کندن
اچانک آج ملا بن کے سائبان مجھے

کلکتہ ہائیکورٹ کو بالآخر میدان میں اترتے ہوئے الیکشن کمیشن کی سرزنش کرنی پڑی ہے جس نے اب تک بھی بنگال اسمبلی انتخابات کے سلسلہ میںصرف کٹھ پتلی جیسا رول ادا کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے اپنے طور پر کچھ بھی کرنے کی بجائے سرکاری اشاروں پر ہی کام کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو حالیہ اقدامات دیکھنے میںآئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک ہوگئی ہے اور اس کے رول پر مختلف گوشوں سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ سارے ملک میں کورو نا نے قیامت صغری برپا کردی ہے ۔ ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے ۔ لو گ زندگی بچانے کیلئے اپنا سب کچھ داو پر لگانے کیلئے تیار ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اور بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کیلئے عوام کی زندگیوں کو داو پر لگانے کیلئے تیار ہے ۔ بنگال میں تین مراحل کی پولنگ کو ایک ہی ساتھ مکمل کرنے کیلئے کئی گوشوں سے اپیل کی گئی ۔ خود چیف منسٹر ممتابنرجی نے بھی اس سلسل میں الیکشن کمیشن سے اپیل کی تھی کہ تین مراحل کے انتخابات کو ایک مرحلہ میں مکمل کردیا جائے لیکن کمیشن نے اس سے انکار کردیا ۔ پھر کسی نے کلکتہ ہائیکورٹ میں اس سلسلہ میںدرخواست داخل کی تو پھر عدالت کو کمیشن کی سرزنش کرنی پڑی ۔ عدالت نے کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ کمیشن کو اپنے احکام پر عمل آوری کروانے کا اختیار حاصل ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے لیکن کمیشن صرف سرکلر جاری کرنے پر اکتفاء کر رہا ہے ۔ یہ ریمارک کمیشن کی کارکردگی کا پردہ فاش کرنے کیلئے کافی ہے ۔ جس طرح سے سارے ملک میں تباہی مچی ہوئی ہے وہی حال بنگال کا بھی ہے ۔ بنگال میں انتخابات کے دوران جس طرح سے بھیڑ جمع کی گئی تھی اور انتخابی ریلیاں کرتے ہوئے سینہ ٹھوک کر بھاری تعداد میں عوام کی آمد کا جشن منایا گیا تھا یہ کورونا کے پھیلاو کا اہم ذریعہ بن گیا ہے ۔ ایک طرف کورونا انسانی زندگیوں کو تلف کر رہا تھا اور بی جے پی انتخابی ریلیوں میںمصروف تھی اور کمیشن بھی اسے پوری طرح سے اپنی خاموشی کے ذریعہ مدد کر رہا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کمیشن از خود سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرتا اور کوئی اہم فیصلہ کردیتا ۔
موجودہ کمیشن کی سرزنش کیلئے یہ ریمارک بھی اہمیت کا حامل ہے جس میںعدالت نے کہا کہ ٹی این سیشن ( سابق چیف الیکشن کمشنر ) نے جو کچھ کیا تھا موجودہ کمیشن اس کا دسواں حصہ بھی ادا نہیں کر رہا ہے ۔ٹی این سیشن انتہائی فرض شناس اور غیر جانبدار عہدیدار کے طور پر سامنے آئے تھے ۔ اپنی انتخابی اصلاحات کے ذریعہ انہوں نے سارے ملک میںمقبولیت حاصل کرلی تھی اور وہ قواعد و قوانین کی تکمیل میں کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھے ۔ آج بھی ان کی سختی اور غیر جانبداری کی مثالیں دی جاتی ہیں اور یہی مثال آج کلکتہ ہائیکورٹ نے بھی دی ہے ۔ ہائیکورٹ نے کمیشن کو یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنے طور پر کچھ فیصلہ نہیں کرتا ہے تو پھر عدالت کو یہ فیصلہ کرنا پڑیگا ۔ اس طرح سے عدالت نے کمیشن کی کارکردی پر ہی سوال پیدا کردیا ہے اور بالواسطہ طور پر اسے نا اہل قرا ر دیا ہے ۔ عدالت نے الیکشن کمیشنسے انتخابی عمل کے دوران کورونا پروٹوکول پر عمل کے سلسلہ میں کئے گئے اقدامات کی تفصیل طلب کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کمیشن نے اس سلسلہ میںکچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ انتخابی ریلیوںاورجلسوں میں کورونا قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ حدتو یہ ہے کہ انتہائی ہجوم میںملک کے وزیر داخلہ تک نے ماسک لگانے سے گریز کیا تھا ۔ ان کی پارٹی کے کئی قائدین بھی ریلیوں میں بھیڑ بھاڑ کا حصہ رہے لیکن انہوں نے بھی ماسک نہیں لگایا اور نہ سماجی دوری کو یقینی بنایا۔
الیکشن کمیشن کو کم از کم اب ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ اسے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسے اپنی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ کمیشن کو اس بات کا احساس کرنا ضروری ہے کہ اس کی کارکردگی اور اس کی غیر جانبداری ملک کی جمہوریت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک میںجمہوریت کی بقا انتخابی عمل پر منحصر ہے اور انتخابات کا انعقاد کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ کمیشن ہی اگر اس معاملہ میں غیر جانبدار نہ رہے اور موثر انداز میں کام نہ کرے اور صرف سرکلرس کی اجرائی تک محدود رہے تو پھر ملک کی جمہوریت کھوکھلی ہوتی جائے گی ۔ الیکشن کمیشن کو اپنی خامیوںاور کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے عوامی بہتری کو پیش نظر رکھتے ہوئیاقدامات کی ضرورت ہے ۔