امریکی سینئر کشمیر دیکھنے کے لئے بے تاب‘ دورے کی اجازت نہیں ملی

,

   

کراچی میں پیدا ہوئے کوڈیکانال کے اسکول میں تعلیم حاصل کی وہیں ان کے والد سری لنکا میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دئے‘ وین ہولان کی جڑیں ہندوستانی سیاست میں پیوست ہیں۔

جموں کشمیر کے متعلق اپنے نظریات پر مقبول ڈیموکرٹیک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکہ کے ایک اہم سینٹر کشمیر کے حالات دیکھنے کے مقصد سے دورہ کرنے کے خواہاں تھے مگر حکومت ہند نے انہیں وہاں جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیاہے۔

جموں کشمیر کے خصوصی درجہ کو 5اگست کے روزحکومت ہند کی جانب سے برخواست کئے جانے کے بعد کریس وین ہولان پہلے امریکی کانگریس مین ہیں جنہیں اجازت دینے سے انکار کردیاگیا ہے۔

کراچی میں پیدا ہوئے کوڈیکانال کے اسکول میں تعلیم حاصل کی وہیں ان کے والد سری لنکا میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دئے‘ وین ہولان کی جڑیں ہندوستانی سیاست میں پیوست ہیں۔

کشمیردورے کی اجازت سے انکار کے باوجود وہ ہندوستان ائے اور عہدیداروں‘ دہلی میں سیول سوسائٹی کے اہم ممبران سے جمعرات اور جمعہ کے روز ملاقات کی۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے جمعہ کے روز وین ہولان نے کہاکہ ”میں چاہتا تھا کہ کشمیر کا دورہ کروں اور وہاں پر کیاہورہاہے وہ پہلے دیکھوں۔ مگر حکومت ہند نے اجازت نہیں دی۔

ایک ہفتہ قبل ہم حکومت سے رجوع ہوئے تھے‘ مگر ہمیں کہاگیا کہ وہاں جانے کے لئے یہ وقت موزوں نہیں ہے“۔وین ہولان جو ہندوستان بھر کا دورہ کیا ہے مگر جموں اور کشمیر نہیں دیکھ سکے نے کہاکہ ”میں سمجھارہاتھا کہ کافی اچھا ہوتا اگر میں وہاں جاتا اور اپنی آنکھوں سے وہاں کے حالات دیکھتا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے تو‘ وہاں پر ریاست کا دورے کرنے کی اجازت میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ حکومت ہند نہیں چاہتی کہ وہاں پر جو ہورہا ہے وہ ہم دیکھیں“۔

وہیں حکومت ہند کی جانب سے کوئی سرکاری ردعمل اس پر پیش نہیں کیاگیا ہے‘

سرکاری ذرائع نے کہاکہ غیر ملکی شخصیات کو مشورہ دیاگیا ہے وہ سکیورٹی اور حفاظت کے پیش نظر وہاں پر نہ جائیں۔ہولان نے کہاکہ ”ہندوستان کے ساتھ میرا گہرا رشتہ ہے اور میں ہند امریکہ تعلقات کو مزید بنانے کی بڑی پیروی بھی کرتارہاہوں۔

اور یہ حکومت ہند کے لئے ضروری ہے کہ وہ امریکی سینٹ کی مختص کمیٹی کے منظور کردہ بل کی ان دفعات پر توجہہ دے جس میں لسانیت میں کشمیر کو بھی شامل کیاگیاہے“۔