امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ جنوبی ایشیاء

   

امریکی صدر جو بائیڈن ایشیاء کے دورہ پر ہیں ۔ بحیثیت صدر امریکہ ان کا یہ پہلا دورہ ایشاء ہے ۔ اس موقع پر وہ علاقہ میں امریکی مفادات کو مستحکم کرنے اور خاص طور پر تجارتی معاملات کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر بائیڈن نے اپنے پہلے دورہ ایشیاء کا جنوبی کوریا سے آغاز کرتے ہوئے شمالی کوریا کو ایک پیام دینے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں شمالی کوریا کی جانب سے کئی میزائیل تجربات کئے گئے ہیں۔ جنوبی کوریا کی جانب سے ان تجربات پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور امریکہ نے تو یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ شمالی کوریا نیوکلئیر تجربہ بھی کرسکتا ہے ۔ یہ تجربہ بائیڈن کے دورہ ایشیاء کے موقع پر ہونے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔ بائیڈن نے شمالی کوریا کو ایک پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کا ملک جنوبی کوریا کے ساتھ اپنے اشتراک کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ بائیڈن نے جنوبی کوریا کیلئے کچھ مراعات کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ ان کے ملک کی جانب سے شمالی کوریا کیلئے بھی کورونا سے نمٹنے امداد کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے ۔ شمالی کوریا نے تاہم جنوبی کوریا اور امریکہ کے بیانات اور اندیشوں پر کسی بھی طرح کے رد عمل کے اظہار سے گریز کیا ہے ۔ بائیڈن نے جہاں شمالی کوریا کو ایک سخت پیام دینے کی کوشش کی ہے وہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ چین کے مقابلہ میں امریکہ کے موقف کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جاپان بھی گئے ہیں۔ جاپان میں وہ باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے اور تجارت کو مزید فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ جاپان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے چین کے خلاف ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن کے دورہ ایشیاء کا جو وقت ہے وہ بھی ایک طرح سے اہمیت کا حامل کہا جا رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں کورونا وباء کی وجہ سے حالات متاثر ہیں اور چین اپنے تجارتی امور پر زیادہ توجہ دینے کے موقف میں نہیں ہے جس کا امریکہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔
اطلاعات میں کہا جا رہا ہے کہ چین میں کورونا وباء نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کئی مقامات پر لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے ۔ چین سارے ایشیاء میں مینوفیکچرنگ کا مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔ دنیا کے کئی خطوں کو یہاں کی اشیا ء سربراہ ہوتی ہیں۔ چین عالمی مارکٹ میں ایک بڑا سپلائر ہونے کا موقف بھی رکھتا ہے ۔ اب جبکہ چین میں کورونا کی وباء نے شدت اختیار کی ہے ۔ کچھ شہروں میں لاک ڈاؤن نافذکردیا گیا ہے تو کچھ مقامات پر دوسری تحدیدات بھی عائد کی گئی ہیں۔ چین میں مینوفیکچرنگ سرگرمیاں عملا ٹھپ ہوگئی ہیں۔ معاشی سرگرمیوں پر بھی کورونا لاک ڈاؤن کا اثر ہوا ہے ۔ ایسے میں امریکہ اپنے لئے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور صدر جو بائیڈن اپنے دورہ کے موقع پر اسی پہلو سے زیادہ توجہ دیتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اپنے ملک کی کمپنیوں اور اداروں کیلئے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے امریکی معیشت کو استحکام حاصل ہوسکتا ہے اور چین کی اجارہ داری کو بھی روکنے میںمدد مل سکتی ہے ۔ وہ جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں تجارتی امورپر خاص طور پر تبادلہ خیال کا اراردہ رکھتے ہیں۔ وہ چین کے حلقہ اثر کو بھی محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب چین کی معیشت پر اثر ہو اور امریکہ کو چین پر سبقت حاصل ہوسکے ۔ جنوبی کوریا اور جاپان میں صدر بائیڈن کی ترجیحات میں یہی امور شامل رہے ہیں۔
صدر بائیڈن جاپان میں چار ممالک کے گروپ کی چوٹی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے ۔ اس گروپ میں امریکہ ‘ جاپان ‘ آسٹریلیا اور ہندوستان شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں بھی صدر بائیڈن چین کی تجارتی سرگرمیوں پر بالواسطہ اثر انداز ہوتے ہوئے اپنے لئے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ چار ممالک تجارتی امور پر ایک رائے ہوجاتے ہیں تو یقینی طور پر اس کے نتیجہ میں چین کیلئے مواقع کم ہونگے ۔ چین کی مینوفیکچرنگ صنعت متاثر ہوسکتی ہے اور اس کا راست اثر چین کی معیشت پر ہوسکتا ہے ۔ بائیڈن اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں فی الحال یہ کہنا آسان نہیں ہوگا ۔