امیت شاہ کی ٹامل وزیر اعظم کی تجویز

   

ہم کو تمہارے عشق نے کیا کیا بنا دیا
جب کچھ نہ بن سکے تو تماشاہ بنا دیا
وزیر داخلہ امیت شاہ نے جو اکثر و بیشتر انتخابی مواقع پر کی گئی تقاریر کو ایک جملہ قرار دیتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں ایک بار پھر ایک ایسا ریمارک کیا ہے جو سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل تو ہے ہی لیکن اس پر کئی طرح کے تبصرے بھی ہو رہے ہیں۔ امیت شاہ نے ٹاملناڈو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کے بی جے پی کارکنوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی جدوجہد کریں کہ ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والا کوئی غریب ملک کا وزیر اعظم بن سکے ۔ حالانکہ یہ موقع کی مناسبت سے کہا گیا جملہ ہوسکتا ہے لیکن اس پر مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر ایم کے اسٹالن نے فوری رد عمل میں کہا کہ امیت شاہ کو وزیر اعظم نریندر مودی سے کیا ناراضگی ہے ؟ ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ دونوں ایک رائے ہیں اور ایک ہی مقصد کیلئے کام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کو امیت شاہ پر مکمل بھروسہ ہے اور امیت شاہ نے اب تک اس بھروسہ کو برقرار بھی رکھا ہے ۔ تاہم ایم کے اسٹالن کا سوال ایک سیاستدان کا رد عمل ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی میں نریندرمودی کے بعد کا کوئی تصور فی الحال نہیں پایا جاتا ۔ حد تو یہ ہے بی جے پی ہی کی طرح ملک کے زر خرید میڈیا میں بھی اکثر و بیشتر یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر مودی نہیں تو کون ؟ ۔ ان تمام نے ملک کے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بٹھادیا ہے کہ ملک کی قیادت کرنا صرف مودی کی ذمہ داری ہے یا وہی اس قیادت کے اہل ہیں اور کوئی دوسرا لیڈر ملک کی قیادت نہیں کرسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندرمودی گذشتہ نو برس سے ملک کی وزارت عظمی پر فائز ہیں جب کہ ان سے زیادہ عرصہ تک کئی وزرائے اعظم نے خدمات انجام دی ہیں۔ تمام وزرائے اعظم کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ہندوستان نے آزادی کے بعد سے بتدریج ترقی کا سفر طئے کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت بنائی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود ملک کے زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس مسلسل یہ سوال کرتے نہیں تھکتے کہ اگر مودی نہیں تو پھر کون ؟ ۔ امیت شاہ کے ریمارک کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے ۔
حالانکہ امیت شاہ نے بھی اس ریمارک کے وقت کوئی زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہوگا لیکن جس طرح کا رد عمل اسٹالن نے ظاہر کیا ہے اس سے سیاسی موقف کا اظہار ہوتا ہے ۔ حالانکہ ملک میں نریندر مودی کی وزارت عظمی کے سب سے بڑے محافظ امیت شاہ ہی ہیں لیکن ان کے ریمارک سے یہ سوال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا مودی نے نریندر مودی کے آگے بھی سوچنا شروع کردیا ہے ؟ ۔ ویسے تو آر ایس ایس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ آئندہ دو دہوں کی حکمت عملی ابھی سے تیار کرنے میں یقین رکھتی ہے اور آئندہ کے حالات کے مطابق ہی کسی چہرہ کو ابھارنے کی کوشش کرتی ہے ۔ نریندر مودی کے تعلق سے بھی یہی کچھ کیا گیا تھا ۔ گجرات فسادات کے بعد جب سارے ملک میں تنقیدیں ہو رہی تھیں آر ایس ایس نے موقع کا استعمال کرتے ہوئے مودی کو مستقبل کے چہرے کے طور پر ابھارنا شروع کیا تھا اور اس میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ نریندر مودی نے وزارت عظمی تک کامیاب سفر کیا اور وہ ایک مستحکم چہرہ ضرور بن گئے ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں آر ایس ایس نے یہ واضح کردیا تھا کہ صرف مودی کی شخصیت اور ہندوتوا نظریہ کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے اور عوام کیلئے بہتر کارکردگی دکھانا اور مقامی اور علاقائی قیادت کو ابھارنا بھی ضروری ہے ۔ امیت شاہ کے ریمارک کو اس تناطر میں بھی اگر دیکھا جائے تواس کی اہمیت بھی ہوگی کہ آیا واقعی بی جے پی اور آر ایس ایس نے مودی کے آگے سوچنا شروع کردیا ہے ؟ ۔
آر ایس ایس نے اس تعلق سے بھلے ہی کچھ سوچا ہو یا نہ سوچا ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی میں 75 سال سے زائد عمر والوں کو دستوری اور اہم عہدوں سے سبکدوش کردیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں بھی امیت شاہ کا ریمارک اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔ اس ریمارک کے تعلق سے سنجیدگی بھلے ہی کتنی ہی رہی ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ اس ریمارک کی وجہ سے ایک سیاسی بحث ضرور شروع ہوگئی ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا لیکن عوام کے ذہنوں میں اس ریمارک کے ذریعہ ایک سوال ضرور پیدا کردیا گیا ہے اور اس پر ملک کے عوام کی کیا رائے سامنے آئے گی یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا۔