اناج منڈی سانحہ‘ مرنے والوں میں گھر کو پیسے بھیجنے والا بیٹا تو دوسرا برہمی کے عالم میں گھر سے جانے والا شامل

,

   

حق نے کہاکہ ”انیس سال کا حسین جو میری بیوی کا بھائی ہے فیکٹری میں کام کرتا تھا اور اس کے والد نے مجھے فون کرکے بتایاکہ انہیں اپنی بیٹے کی موت کی جانکاری ملی ہے۔

مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کیاکرنا اورکہاں جانا ہے‘اسی وقت مجھے اندازہ ہوا کہ اسکی نعش لوک نائیک اسپتال میں تھی‘ وہ پہلے ہی رات کا وقت تھا“

نئی دہلی۔سعودی عربیہ کے اپنے ایک رشتہ دار کا 45سال کے ضیاء الحق جو اتوار کی دوپہر دہلی میں فیکٹری میں لگی آگ کے متعلق جب فون کال موصول ہوا‘ تو اس نے معاملے کو ہلکے میں لیا

اورروز مرہ کے کاموں میں مشغول ہوگیا۔ جیسے ہی لنچ کے لئے بیٹھا اور ٹی وی کھولا‘ اس کو حالات کی نوعیت کا اندازہ ہونے لگا‘ بہار کے مظفر نگر سے آنے والے دوسرے فون کال نے اس کو ہلا کررکھ دیا۔

حق نے کہاکہ ”انیس سال کا حسین جو میری بیوی کا بھائی ہے فیکٹری میں کام کرتا تھا اور اس کے والد نے مجھے فون کرکے بتایاکہ انہیں اپنی بیٹے کی موت کی جانکاری ملی ہے۔

مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کیاکرنا اورکہاں جانا ہے‘اسی وقت مجھے اندازہ ہوا کہ اسکی نعش لوک نائیک اسپتال میں تھی‘ وہ پہلے ہی رات کا وقت تھا“۔منگل کے روز حق اسپتال کے مردہ خانہ کے باہر کھڑے تھے‘

حسین کے والد کی آمد کا انتظار میں تھے۔

حق نے کہاکہ ”چار ماہ قبل والدہ کی بہار میں سڑک حادثہ کی وجہہ سے موت کے بعد گھر میں لڑائی کرکے حسین دہلی آگیاتھا۔

اس کے والد نہیں چاہتے تھے کہ حسین جائے انہیں ڈر تھا کہ بڑے شہر میں ان کے بیٹے کو کوئی تکلیف یا نقصان ہوگا۔ ان کا بڑا خوف سچ ثابت ہوا ہے“۔

پیر کی رات تک چھ نعشیں ان کے گھروں کے لئے روانہ ہوگئی تھیں۔ چہارشنبہ کی دوپہر تک ماباقی نعشوں کا پوسٹ مارٹم بھی ہوگیاتھا۔ مردہ خانہ کے بعد ایک 26سالہ محمد نصیب بھی کھڑے تھے‘

جو پیشہ سے ٹیلر ہیں اور ان کا سالہ 26سالہ سجاد بھی اس حادثہ میں فوت ہوگیا جس کا تعلق بہار کے سمستی پور سے تھا۔

انہوں نے کہاکہ ”سجا د کی بیوی نے ایک ہفتہ قبل اپنے دوسری اولاد کوجنم دیا جوبیٹی ہے۔ وہ اگلے ماہ جانے والا تھا“۔ اس کی بیوی سے کہاگیا ہے کہ سجا د زندہ ہے۔

نصیب نے کہاکہ ”جب ہم گھر کے قریب میں پہنچے تو ہم نے اسی کو بتایا کہ وہ اب زندہ نہیں ہے“۔ سجاد کا17سالہ ایک بھائی وحید بھی آگ سانحہ میں فوت ہوگیا ہے جبکہ تیسرا بھائی واجد زیر علاج ہے۔

غمزدہ ہجوم میں ایک سیول سروس کا امیدوار شعیب صدیقی بھی تھا جو لوک نائیک اسپتال دو نعشوں کی شناخت کے لئے پہنچاتھا‘ جو اس کے بہنوائی 34سالہ ایوب اور ان کے بھائی 32سالہ زاہد کی تھیں۔

صدیقی نے کہاکہ ”دونوں نے اپنے پیچھے تین بچوں کو چھوڑا ہے جو دس سال سے کم عمر کے ہیں۔

ہم فیملی کے دیگر ممبران کی آمد کا انتظار کررہے ہیں اور پوسٹ مارٹم ہوگا“۔

درایں اثناء 19سالہ غیاث الدین کی فیملی صدمہ سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے۔

بہار کے سیلمادی کا رہنا والا ایک نابالغ جو یکم جنوری کے روز بیس سال کا ہوتا تھا۔ ایک ذمہ دار بیٹا جو اپنے چھوٹے بھائی کی تعلیم کے لئے گھر جارہاتھا۔

نوائیڈا میں ٹیلر کی دوکان چلانے والے ایک رشتہ دار محمد قاسم نے کہاکہ”ایک سال سے یہاں کام کررہاتھا‘ بھائی کی پڑھائی کے لئے پیسہ بھیجتا تھا۔

بیس سال کا ہونے والا تھا تو ہم اس کی شادی کے لئے بھی سونچ رہے تھے“