انتخابات ‘ آج پہلا مرحلہ

   

نغمہ صبح پھر سے سنا دیجئے
پھر امیدوں کی شمعیں جلا دیجئے
ملک میں انتخابی عمل اب عروج پر پہونچ رہا ہے ۔ سات مراحل میں رائے دہی ہونے والی ہے جس کے پہلے مرحلے میںآج جمعہ کو جملہ 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی کیلئے انتخابی مہم کا چہارشنبہ ہی کو اختتام عمل میں آچکا تھا ۔ جہاں ملک کے دوسرے حصوں میں ابھی انتخابی مہم بتدریج شدت اختیار کر رہی ہے وہیں 102 حلقوں میں ووٹنگ کی تیاری بھی پوری ہوچکی ہے اور صبح سات بجے سے رائے دہندوں کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا جائیگا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے رائے دہی کے پرسکون انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے گئے ہیں تاہم جہاں تک انتخابی مہم کی بات ہے تو اس میں کئی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے عوامی مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور عوامی مسائل کی بجائے مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہی اقدامات کئے گئے ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کی ساری توجہ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے پر ہی مرکوز ہے تاکہ مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی اس کی کوشش کامیاب ہوسکے اور اسے انتخابات میں کامیابی مل جائے ۔ ملک کے وزیر اعظم تک نے بھی عوامی مسائل پر بات کرنے اور گذشتہ دس برس میں اپنی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے رام مندر پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ انہوں نے روزگار اور ملازمتوں اور مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کی بجائے رام رام کا نام جپنے کا عوام کو مشورہ دیا ہے ۔ خود وہ بھی اپنی انتخابی ت تقاریر میں یہی کرتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسے امور پر توجہ دیتے ہوئے کارروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی جا رہی ہے جس سے اس کی غیرجانبداری پر بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس جماعت یا کس امیدوار نے عوام کے مسائل پر توجہ دی ہے اور کس نے انہیں بنیادی اہمیت کے حامل مسائل سہ بھٹکانے اور ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔
انتخابی مہم کے دوران خاص طور پر بی جے پی اور اس کے امیدواروں کی جانب سے گذشتہ دس برس کی کارکردگی پر کوئی رپورٹ پیش کرنے کی بجائے عوام کو غیر اہم مسائل میں الجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف ریمارک کرتے ہوئے انتخابی عمل کو سیاسی رسہ کشی کے میدان میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ شخصی ریمارکس کرتے ہوئے انتخابی عمل کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اپوزیشن قائدین پر اس طر ح کے رکیک الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی سابق میں کوئی نظیر شائد ہی مل پائے ۔ انتخابی مہم کے دوران یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ دس سال قبل سالانہ دو کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس کو پورا کیوں نہیں کیا گیا ۔ یہ جواب نہیں دیا گیا کہ روزگار فراہم کرنا تو دور کی بات ہے سابقہ تعداد میں نوکریوں کو برقرار تک نہیں رکھا گیا ہے ۔ 100 دن میں مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن الٹا مہنگائی 100 تک بڑھ گئی ہے ۔ اس تعلق نہ ملک کا گودی میڈیا حکومت سے کوئی سوال نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی حکومت یا اس کے ذمہ داران کی جانب سے کوئی جواب دیا جا رہا ہے ۔ گودی میڈیا الٹا اپوزیشن کو چاروںشانے چت کرنے کی مہم میں لگا ہوا ہے اور اقتدار کے تلوے چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اسی گودی میڈیا اور اس کے اینکرس پر حکومت کی نظر عنایت بھی ہے اور جو کوئی حکومت سے سوال کر رہے ہیں ان کی ملازمتیں چھینی جا رہی ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
موجودہ صورتحال میں پارلیمانی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابی مہم میں جتنی شدت دیکھی جا رہی ہے اور جتنی مزید پیدا ہوگی اس کو دیکھتے ہوئے رائے دہندوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جذباتیت کا شکار نہ ہوجائیں۔ ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل اور حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ کارکردگی کو پرکھیں اور وعدوں اور منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کریں۔ رائے دہندوں کو اپنی فہم و فراست کے ساتھ ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کا تعین کرنا ہوگا ۔ ان کا ایک ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا ۔