انتخابی شکست پر بوکھلاہٹ

   

میرا ظرف سمجھو یا مری ذات کا پردہ
جب سے ٹوٹا ہوں خاموش رہتا ہوں
انتخابی شکست پر بوکھلاہٹ
بی جے پی لیڈر و مرکزی وزیر بابل سپریو ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شکست پر ضرورت سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ہفتے کو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد جس تیور کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی بھی طرح سے ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر یا مرکزی وزیر کے تیور نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اس بار ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے تعلق سے انتہائی پرامید تھی ۔ اس نے یہاں ساری طاقت جھونک دی تھی ۔ ساری مرکزی کابینہ بنگال میں انتخابی مہم کا حصہ بن گئی تھی ۔و زیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے علاوہ کئی ریاستوں کے چیف منسٹروں کو بنگال میں مہم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ یہ لوگ اپنی اپنی ذمہ داری کو پوری کرنے کی بجائے بنگال کی انتخابی مہم میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے تھے ۔ ممتابنرجی کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی کو 200 سے زائد نشستیں حاصل ہونگی اور ریاست میں اس کا اقتدار ہوگا ۔ تاہم جب نتائج کا اعلان ہوا تو بنگال کے عوام نے بی جے پی کے تمام دعووں کو مسترد کردیا اور انہوں نے مسلسل تیسری بار ممتابنرجی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اقتدار بخشا ہے ۔ ان نتائج سے بی جے پی کو یقینی طور پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس کے حوصلے پست ہوگئے ہیں اور اس کی توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں لیکن دو مرکزی وزراء راج ناتھ سنگھ اور نرملا سیتارامن نے ممتابنرجی کو اس کامیابی پر مبارکباد دی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی وفاقی ڈھانچہ کی روایات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے ٹوئیٹ کرتے ہوئے ممتابنرجی کو مبارکباد دی ہے حالانکہ ممتابنرجی کو یہ شکایت ہے کہ وزیر اعظم نے فون کرکے مبارکباد نہیں دی ۔ تاہم جس طرح کے رد عمل کا بابل سپریو نے اظہار کیا ہے وہ پارٹی کی شکست کے اثرات سے زیادہ ان کی شخصی شکست کی مایوسی کا اظہار تھا ۔ بابل سپریو لوک سبھا کے رکن ہیں اور مرکزی وزیر بھی ہیں ۔ اس کے باوجود انہیں ٹالی گنج حلقہ سے بی جے پی نے انتخابی میدان میں اتارا تھا لیکن وہ بھی بنگال کے ایک وزیر کے ہاتھوں بری طرح سے شکست کھا گئے ۔
پارٹی کی اور اپنی شکست کے بعد سپریو نے ایک فیس بک پوسٹ میں ریاست کے عوام ہی پر برہمی کا اظہار کردیا ۔ ایک طرح سے انہوں نے بنگال کے عوام کی فہم و فراست کو چیلنج کرنے کی جراء ت کی ہے ۔ حالانکہ ایسی کوششیں انتخابی عمل کے دوران بھی ہوئی تھیں اور یہ کوششیں بی جے پی کو مہنگی بھی پڑی ہیں۔ انتخابات کے دوران ریاستی صدر دلیپ گھوش نے عوام کو ایک طرح سے فائرنگ سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کا خمیازہ انہیں اور ان کی پارٹی کو بھگتنا پڑا ہے ۔ اسی طرح اب بابل سپریو نے جس مایوسی کے عالم میں بیان دیا ہے اس سے ان کی بوکھلاہٹ ہی کا پتہ چلتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بنگال کے عوام نے ایک شاطر خاتون کو کامیابی دلائی ہے ۔ یہ بنگالی عوام کی تاریخی غلطی ہے ۔ وہ ممتابنرجی کو کامیابی پر کوئی مبارکباد نہیں دینگے اور نہ ہی عوام کا فیصلہ قبول کرنے کا اعلان کرینگے ۔ اس طرح کے بیان سے بابل سپریو نے بنگالی عوام کے فیصلے کو ہی مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ ان کی سیاسی حماقت ہوسکتی ہے کیونکہ کسی بھی جمہوریت میں عوام کا فیصلہ ہی مقدم ہوتا ہے اور اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ کراری سے کراری شکست کے باوجود ہر جماعت نے عوام کے فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرینگے اور دوبارہ عوام سے رجوع ہو کر ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاہم بابل سپریو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔
بی جے پی نے جس طرح سے بنگال میں انتخابات لڑے تھے اس سے پتہ چلتا تھا کہ پارٹی نے ان انتخابات کو وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے ۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک نے یہاں 50 سے زائد انتخابی ریلیاں کیں اس کے باوجود پارٹی کو شکست ہوگئی ۔ شکست پر مایوسی ایک فطری بات ہے لیکن جمہوریت میں یقین رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کیلئے تیاری کرنا ہی سیاسی قائدین کا وطیرہ ہونا چاہئے لیکن بابل سپریو ایسا کرنے کی بجائے اپنی شدید بوکھلاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بوکھلاہٹ ان کیلئے زیادہ مضر ثابت ہوسکتی ہے ۔