انتخابی مہم اور وزیر اعظم

   

آیا خالی، رہا خالی، گیا خالی
ہائے رے مودی تیری خستہ حالی
ملک بھر میں یا ملک کی کسی بھی ریاست میں جب اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو وزیر اعظم نریندر مودی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ کبھی تو یہ دعوے بھی کئے جاتے ہیں کہ وزیر اعظم تن تنہا بی جے پی کی انتخابی مہم سنبھالتے ہیں اور پارٹی کو بیشتر مواقع پر انہوں نے کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔ تاہم ہماچل پردیش اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم اپنی پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرپائے تھے ۔ اب ملک کی پانچ ریاستوں میںا سمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ نامزدگیوں کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ ایک ریاست میزورم میں تو ووٹ بھی ڈالے جاچکے ہیں جبکہ ایک اور ریاست چھتیس گڑھ میں انتخابات کا ایک مرحلہ مکمل بھی ہوچکا ہے ۔ اب چھتیس گڑھ میں دوسرا مرحلہ ہونا باقی ہے ۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور تلنگانہ میں ابھی انتخابی مہم عروج پر پہونچ رہی ہے ۔سب سے آخر میں تلنگانہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ فی الحال جو انتخابی گھمسان ہے وہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس پارٹی مدھیہ پردیش میں بی جے پی سے اقتدار چھیننے کی کوشش کر رہی ہے تو بی جے پی راجستھان میں ا قتدار پر واپسی کیلئے کوشاں ہے ۔ اس بار دلچسپ بات یہ ہے کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے کسی چیف منسٹر کے چہرے کو پیش نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ اب تک مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان اور راجستھان میں وسندھرا راجے سندھیا کو پیش کیا جاتا رہا ہے ۔ اس بار بی جے پی نے اعلان کردیا ہے کہ انتخابات میں پارٹی کا ایک ہی چہرہ ہے اور وہ کنول کا پھول ہے ۔ پارٹی قائدین حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن جہاں تک خود وزیر اعظم کا سوال ہے تو وہ اس بار اتنے جوش و خروش کے ساتھ مہم چلاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم یقینی طور پر انتخابی جلسوں میں شرکت کر رہے ہیںاور عوام سے خطاب بھی کر رہے ہیں لیکن جس طرح سے بی جے پی ان کے دوروں اور جلسوں کی تشہیر کیا کرتی تھی یا خود وزیر اعظم جس جوش و خروش میں دکھائی دیتے رہے ہیں اس بار صورتحال ویسی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔
بی جے پی کو ایک طرح سے اپنی امکانی شکست کا اندازہ ہو رہا ہے ۔ پارٹی میں داخلی سطح پر کچھ اختلافات بھی مشکل صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ کسی بھی لیڈر کو وزارت اعلی امیدوار کے طور پر پیش نہ کرنے کے بھی انتخابی مہم پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پارٹی قائدین میں ایک دوسرے کے تعلق سے اندیشے اور شبہات ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا جوش و خروش سے عاری دکھائی دینا بھی بی جے پی کے انتخابی امکانات کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ وزیر اعظم مودی ہوں یا پھر بی جے پی ہو ہمیشہ انتخابات کے موسم میں ایک طرح کے تہوار کے موڈ میں دکھائی دیتے رہے ہیں۔ مخالف جماعتوں اور امیدواروں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی تھی ۔ تاہم اس بار ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ وزیر اعظم تقاریر بھی کر رہے ہیں ۔ پارٹی قائدین کی بھی ریلیاں اور جلسے جاری ہیں لیکن وہ تیور اور عنصر دکھائی نہیں دے رہے ہیں جو ہمیشہ سے بی جے پی کا خاصہ رہے ہیں۔ پارٹی کے امیدوار اپنے طور پر جوش و خروش کے ساتھ مہم تو چلا رہے ہیں لیکن انہیں جس طرح کی حوصلہ افزائی کی ضرورت محسوس ہواکرتی تھی وہ پوری نہیں ہو رہی ہے ۔ بعض حلقوں کا تاثر ہے کہ امکانی شکست کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کی اعلی قیادت نے انتخابی مہم کے تعلق سے سرد مہری والا رویہ اختیار کیا ہے اور خاص طور پر آئندہ پارلیمانی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا جا رہا ہے جو واضح طور پر دکھائی بھی دے رہا ہے ۔
بی جے پی کے ہی بعض حلقوں کا تاثر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا انتخابی مہم میں روایتی جوش و خروش دکھائی نہ دینا اسی محتاط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کیونکہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابی نتائج کے اثرات آئندہ پارلیمانی انتخابات میں دیکھنے کو ملیں ۔ اگر وزیر اعظم کو ہی روایتی چہرے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جس طرح کرناٹک میں کیا گیا تھا اور پارٹی کو شکست ہوجائے تو پھر پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر بھی اس کے اثرات ہوسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ایک حکمت عملی کے تحت اس بار کام کر رہی ہے اور شائد وزیر اعظم بھی اسی وجہ سے اپنی ساکھ بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔