انڈیا کی تعریف سے ناواقف یہ لوگ

   

ڈاکٹر رام پنیانی
یہ حسن اتفاق دیکھئے کہ جب اپوزیشن جماعتیں انڈیا (انڈین نیشنل ڈیموکریٹک انکلشیو الائنس) جیسا اتحاد تشکیل دینے متحد ہوئیں اور اپنا اتحاد تشکیل دیا اس کے فوری بعد بی جے پی نے سرکاری مراسلات، بیانات، اعلامیے، اعلانات اور دعوت ناموں میں لفظ INDIA کا استعمال ترک کردیا اور پھر تمام ہندوستانیوں اور دنیا والوں نے دیکھا کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے ایک فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا کہ صرف لفظ ’’بھارت‘‘ ہی ہمارے ملک کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ G-20 میں حصہ لینے والے نمائندوں یا وفود کے لئے جو دعوت نامے صدر جمہوریہ کی جانب سے روانہ کئے گئے ان میں بھی بتایا گیا یہ دعوت نامہ راشٹرپتی آف بھارت (بھارت کے راشٹرپتی) کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے بی جے پی حکومت جو اپنے سرکاری اعلانات میں لفظ انڈیا استعمال کرنے سے گریز کررہی ہے اس کے لئے یہ بہانہ تراش لیا ہیکہ یہ لفظ نوآبادیاتی میراث ہے کیونکہ اس ملک کو بدترین برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے ’’انڈیا‘‘ نام دیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر اور چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسواسرما کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’انڈیا ‘‘ نام نوآبادیاتی وراثت کا ایک حصہ ہے اور اسے ہٹا دیا جانا چاہئے۔ انڈیا نہیں بلکہ بھارت استعمال کرنا چاہئے۔ اسی پیغام کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور دوسرے عہدہ دار بڑی شدت کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ گوہاٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر موہن بھاگوت نے انڈیا نام کو ترک کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کچھ یوں کہا ’’ہم سب کے لئے لفظ انڈیا کا استعمال ترک کرنا اور بھارت کا استعمال شروع کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ انگریزی سمجھتے ہیں انگریزی بولتے ہیں ایسے وقت لفظ انڈیا کا ہم استعمال کرتے ہیں یہ ایک بہاؤ کی طرح آتا ہے تاہم ہمیں لفظ انڈیا کا استعمال ترک کرنا چاہئے۔ اس کی ایک اور وجہ ہیکہ یہ دکھانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ انڈیا اور بھارت مختلف تہذیبوں و ثقافتوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ دونوں نام ملک کے مختلف حصوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ موہن بھاگوت نے ماضی میں جو بیانات دیئے ہیں ان میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ریپ انڈیا میں ہوتے ہیں بھارت میں نہیں۔ اپنے بالکلیہ غلط بیانی کے مطابق بھاگوت نے دعوی کیا کہ عصمت ریزی اور اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات صرف ’’شہری انڈیا‘‘ تک محدود ہیں کیونکہ شہری انڈیا میں مغربی تہذیب پائی جاتی ہے دیہی انڈیا میں اس قسم کی چیزیں نہیں ہوتیں، یہ ایسے علاقہ ہوتے ہیں جہاں روایتی اقدار کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور ان اقدار کے باعث ہی عصمت ریزی اور اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات پیش نہیں آئے۔ اب حال یہ ہوگیا ہیکہ جیسے ہی اپوزیشن نے متحد ہوکر اپنے اتحاد کو INDIA کا نام دیا اس تناظر میں پھر سے یہ مسئلہ چھڑ گیا ہے۔
ملک میں انڈیا اور بھارت کو لے کر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اس سلسلہ میں اکثر لوگ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر سچ کیا ہے۔ جس طرح انڈیا نام کے بہت ذرائع ہیں جیسا کہ تہذیبیں جامد نہیں ہوتی اور چیزیں وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ براعظموں، سلطنتوں اور ملکوں کے نام بھی تبدیل ہوچکے ہیں، اس سلسلہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ملک کے دو بڑے ناموں کئی ذرائع بھی یاد ہیں ایک بھارت ہے جس کی جڑیں مقدس ذرائع میں پیوست ہیں بعض ذرائعوں میں ہمیں جمہود ویپ جیسے دوسرے نام بھی ملتے ہیں یہ اشوک اعظم کے فرمودات میں بھی ہمیں ملتا ہے۔ جمہودویپ کا مطلب میرو کے اطراف و اکناف پائے جانے والے چار براعظموں کا جنوبی حصہ جو ان زمینوں پر رہنے والے عوام کا مرکز ہے اور اس کی توثیق و تصدیق کائناتی تفہیم سے بھی ہوتی ہے۔ یہ جمہودیپ (اس کا نام جامن بیری) کے درخت سے اخذ کیا گیا ہے) مالدیپ، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان پر مشتمل ہے اسی طرح آر پاورتا کو گنگا کے طاس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں آرپائی یہاں اپنی آمد کے بعد پہلی مرتبہ آباد ہوئے تھے۔ جہاں تک ’’بھارت‘‘ کا سوال ہے اس کا حوالہ ’’قبیلہ بھارت‘‘ اور ایک عظیم بادشاہ بھارت کے بعد دیا جانے لگا یعنی بادشاہ بھارت اور قبیلہ بھارت پر ہمارے ملک کو بھارت کہا جانے لگا رگ وید (18 ویں تعریفی و ستائشی کلمات ساتویں کتاب) میں راجہ سداسا کے خلاف دس راجنس (دس راجاؤں) کی جنگ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ راجہ سداسا قبیلہ بھارت سے تعلق رکھتا تھا۔ مہابھارت میں سلطنت بھارت کے مذکورہ راجہ کا بھارت چکرورتی (فاتح حکمراں) اور کورو و پانڈوؤں کے آباواجداد کے طور پر حوالہ دیا۔ وشنو پورانا میں بھارت وشنم کا حوالہ ملتا ہے یعنی سلطنت بھارت کا ذکر ہے جس میں آج کا پاکستان، افغانستان اور ایران شامل ہیں۔ اب چلتے ہیں جین مذہب کے مذہبی مواد یا ادب کی طرف جس میں بتایا گیا کہ بھارت چکرورتی پہلے جین تیر تھنک (بانی کے بڑے بیٹے ہیں)۔ سریز کے دوسرے نام عام طور پر دریائے سندھ کے آس پاس کے ہیں اویتا Avesta میں اس کا حوالہ HAPTAHINDU کے نام سے دیا ہے۔ اسی طرح ویدوں میں جگہ جگہ اس کا ذکر SAPTASINDHOL کے طور پر کہا گیا ہے جبکہ ACHAEMINID (فارسی) ذرائع نے اس کا حوالہ HINDUSH کے نام سے دیا ہے یہاں تک کہ اس سے قبل 4 ویں صدی قبل مسیح میں میگاتھنیز نے اسے انڈیا کہا ہے جو یونانی میں منتقل ہوا اسے INDIKE کہا گیا ہے ۔ یہ دراصل آنے والے وقت میں INDIA کا ذریعہ تھا جو لوگ INDIA نام کو نوآبادیاتی وراثت کہہ رہے ہیں دراصل وہ لفظ انڈیا کی اصطلاح کی ابتدائی پیچیدہ تاریخ سے واقف نہیں ہیں اور دستور میں موجود ہمارے ملک کے نام INDIA کا استعمال کرنے سے انکار کررہے ہیں وہ صرف اور صرف اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایسا کررہے ہیں۔ ملک کے دستور میں واضح طور پر ’’انڈیا جو بھارت ہے‘‘ کہا گیا ہے۔ انسانی تہذیبیں جامد نہیں ہیں کیونکہ جو تہذیبیں جامد یا منجمد اور محدود ہوتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرپاتی ان کی نشونما نہیں ہوسکتی وہ فروغ پانے سے محروم رہتی ہیں۔ یہ ان لوگوں نے دیکھا ہے جو نوآبادیاتی اور استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے اور آج بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں سریندر ناتھ بنرجی کی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ کس طرح انہوں نے ’’انڈیا نشینن ان دی میکنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ گاندھی نے اپنا اخبار ‘Young India’ شروع کیا۔ معمار دستور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کیسے اپنی ’’انڈیا لیبر پارٹی قائم کی اور پھر بعد میں ری پبلکن پارٹی آف انڈیا کی بنیاد ڈالی۔ لفظ INDIA کا استعمال کسی بھی طرح نوآبادیاتی وراثت نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہمارے ملک کی سرزمین پر تجارت اور لوٹ مار کرنے کے لئے قدم رکھنے سے بہت پہلے ہی وجود میں آچکا تھا، استعمال میں آچکا تھا۔ اس لفظ کو متعدد مرتبہ استعماری طاقتوں و نوآبادیاتی نظام کے خلاف تحریکوں میں استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ہمارا ملک INDIA کے نام سے جانا اور پہنچانا جاتا ہے۔ ایک بات ضرور ہیکہ نوآبادیاتی وراثت اور مغربی اثر و رسوخ کے بہانے جو لوگ لفظ ’’انڈیا‘‘ کے استعمال کو روکنا چاہتے ہیں وہ آزادی مساوات اور بھائی چارگی کے جمہوری اقدار کی بھی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ کچھ عرصہ قبل تک بھی یہ طاقتیں اس لفظ کو استعمل کرتی رہی ہیں ہمارے ملک میں میڈان انڈیا جیسی مہمات بہت زیادہ ہیں مثال کے طور پر اسکل انڈیا، مائی کلین انڈیا وغیرہ وغیرہ۔ اس سے قبل بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے ووٹ فار انڈیا کی بات کی تھی لیکن اب وہ لفظ انڈیا کے شدت سے مخالفت کرنے لگے ہیں۔ ’’انڈیا جو کہ بھارت ہے‘‘ تسلسل اور تبدیلی کا ایک خوبصورت بیان تھا۔ اگرچہ یہ روایات کے شاندار پہلوؤں کو برقرار رکھتا ہے یہ ان تبدیلیوں کے لئے اپنے بازو کھولتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ہیں اور جو انڈیا میں جدید دور کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ دستور بنانے والوں کو لفظ بھارت سے کوئی الرجی نہیں تھی اسے دل سے ہماری روح کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ انہوں نے بائندی کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ جدید دور میں ملک کی حقیقت کا تصور کیا۔ یہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے ترانے جن گن من کی قبولیت میں بہت اچھی طرح سے جھلکتا ہے اس کے تسلسل میں راجیو گاندھی نے 21 ویں صدی کے انڈیا کا خواب دیکھتے ہوئے میرا بھارت مہان کا نعرہ بھی دیا تھا۔