اپوزیشن حکومتوں پر بی جے پی کا شکنجہ

   

پارہ پارہ ہوکے اُڑ جائے گا کہسارِ الم
گرچہ انساں باندھ رکھے حوصلہ اپنی جگہ
اپوزیشن حکومتوں پر بی جے پی کا شکنجہ
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ ملک کے حالات میں استحکام پیدا ہوگا ۔ جن ریاستوں میں غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومتیں ہیں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے وفاقی جمہوریت کو فروغ دیا جائیگا لیکن ملک کے موجودہ حالات ان توقعات اور امیدوں کے بالکل برعکس بنادئے گئے ہیں اور صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ ملک بھر میں ایک طرح سے سیاسی اتھل پتھل اور افرا تفری کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ ارکان اسمبلی میں بغاوتوں اور انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سیاسی اعداد و شمار میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور اس کے پس پردہ بی جے پی کے سیاسی محرکات کار فرما نظر آتے ہیں۔ جس طرح سے کرناٹک اور پھر گوا میں کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی نے سیاسی جال بچھایا ہے اس سے ملک کی جمہوریت کی دھجیاں اڑتی نظر آ رہی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ہند پر توجہ دیتے ہوئے بی جے پی کسی بھی قیمت پر کرناٹک میں اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کو تلنگانہ میں چار لوک سبھا حلقوں سے اور کرناٹک میں خاطر خواہ کامیابی کے بعد اس نے جنوبی ہند کو اپنا اگلا نشانہ بنالیا ہے ۔ پارٹی کو امید ہے کہ کرناٹک میں اگر بی جے پی کی حکومت تشکیل پا جاتا ہے تو آئندہ اسمبلی انتخابات میں تلنگانہ میں بھی بی جے پی اپنی کارکردگی میں بہتری پیدا کرسکتی ہے ۔ اسی منصوبے کے تحت بی جے پی نے کرناٹک کی حکومت کو سب سے پہلے زوال کا شکار کرنے کے منصوبہ پر ’ آپریشن کنول ‘ کے ذریعہ عمل آوری کا آغاز کردیا ہے ۔ جس طرح سے کرناٹک میں ارکان اسمبلی کو انحراف کی بجائے بغاوت پر آمادہ کیا گیا اور انہیں مستعفی کرواتے ہوئے کمارا سوامی حکومت کو گرانے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے اس سے سارے ملک میں اور خاص طور پر سیاسی حلقوں میں بے چینی کی فضاء پیدا ہوگئی ہے ۔ اس منصوبے کو مزید وسعت دیتے ہوئے گوا میں بھی بی جے پی کی حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے کانگریس کے 10 ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ یہ انتخابات میں ووٹ کے ذریعہ سامنے آنے والی رائے عامہ کی صریح اور واضح توہین ہے ۔
کرناٹک کا جو منصوبہ دکھائی دے رہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ انحراف کے قانون سے بچنے کیلئے نئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کے بعد کمارا سوامی حکومت اقلیت میں آجائے اور وہ اقتدار سے محروم ہوجائے ۔ پھر ایوان کی موجودہ عددی طاقت کی بنیاد پر بی جے پی کو اقتدار پر فائز ہونے کا موقع مل جائے اور جو ارکان اسمبلی کانگریس اور جے ڈی ایس سے مستعفی ہو ئے ہیں انہیں دوبارہ بی جے پی سے ٹکٹ دیتے ہوئے کامیاب کرلیا جائے تاکہ ایڈورپا کی قیادت والی حکومت ایک منطقی اور دستوری حکومت بن جائے ۔ حکومت سازی کیلئے تاہم تمام تر غیر جمہوری اور غیر دستوری طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے بی جے پی مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کر رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اپنی پہلی معیاد میں دئے گئے کانگریس مکت بھارت کے نعرہ پر اپنی دوسری معیاد میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ عمل آوری کر رہی ہے ۔ اس کیلئے قانون ‘ دستور اور جمہوریت کے اصولوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس کے سامنے صرف اپنے اقتدار کی وسعت اور راجیہ سبھا میں اکثریت کے حصول کا نشانہ ہے تاکہ اس کے جو متنازعہ قوانین تیار کرنے کے منصوبے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جاجاسکے ۔ جمہوری اور دستوری اعتبار سے ملک کے حالات انتہائی فکر اور تشویش کا باعث نظر آتے ہیں۔
اب وقت کا تقاضہ یہ ہوتاجا رہا ہے کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ہوجائیں ۔ جو جماعتیں این ڈی اے میں شامل ہیں اور بی جے پی کی تائید کر رہی ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ آنے والے حالات کا قبل از وقت اندازہ کرلیں ۔ انہیں فوری جاگنے کی ضرورت ہے قبل اسکے کہ بہت تاخیر ہوجائے ۔ ان اندیشوں کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کانگریس کا عملا صفایا کرنے کے بعد دیگر جماعتوں کے صفائے کی مہم بھی شروع کرسکتی ہے ۔ ملک میں صرف ایک جماعت کے راج کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں اور اس شبہ کو امیت شاہ کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی 2019 کے انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے تو آئندہ 50 سال ہندوستان پر راج کریگی ۔