اپوزیشن کی صفوں میں انتشار

   

ایک ہوجائے تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
اپوزیشن کی صفوں میں انتشار
ہندوستان بھر میں اب جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اور جو ماحول تیار کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتہاء درجہ کی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہیں اور انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ حکومت کا سیاسی طور پر مقابلہ کس طرح سے کریں۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی سے انتشار کا شکار ہیں اور مسلسل انتشار کی کیفیت ہی میں مبتلا ہوتی جا رہی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں اسی انتشار اور داخلی خلفشار کی وجہ سے ان جماعتوں کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بی جے پی دوبارہ بڑی طاقت کے ساتھ پہلے سے زیادہ نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوکر دوسری معیاد کیلئے حکومت بھی تشکیل دے چکی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی کامیابیوں کیلئے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان جماعتوں کی نا اہلی اور عدم منصوبہ بندی و حکمت عملی کی وجہ سے ہی بی جے پی کو عوام کی تائید حاصل کرنے اور اپنی طاقت میںاضافہ کرنے کاموقع ملتا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت دوسری جماعت کو بی جے پی کیلئے معاون ہونے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے اور یہ دعوی کرنے لگتی ہے کہ ایسی بالواسطہ تائید ہی کے ذریعہ بی جے پی کو استحکام بخشا جا رہا ہے ۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں کوئی بھی جماعت یا کوئی بھی لیڈر حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اور اپنی پارٹی کے سیاسی موقف کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کیلئے تیار ہی نظر نہیں آتی اور یہی وہ رجحان یا طریقہ کار ہے جس کی وجہ سے ان جماعتوں کو تقریبا ہر الیکشن میں عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا اور منہ کی کھانی پڑی ہے ۔ مسلسل شکستوں اور بی جے پی کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کے باوجود بھی یہ جماعتیں اپنی آنکھیں کھولنے کو تیار نظر نہیں آتیں ۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والی بی جے پی اپوزیشن مکت بھارت کا نعرہ بھی دے اور اپوزیشن کا وجود ہی ختم ہوکر رہ جائے ۔یہ ایسی حقیقت ہے جو بہت سے گوشے سمجھنے سے عاری ہیں یا پھر وہ عمدا سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور اپنی آنکھیں بند رکھتے ہوئے عافیت محسوس کرنے پر ہی اکتفاء کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کسی بھی پارٹی میں تنہا اپنے طور پر بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی کوئی طاقت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ اس ملک پر طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والی کانگریس پارٹی بھی ایک طرح سے بے سود ہوکر رہ گئی ہے ۔ وہ حرکت کرنے کے موقف میں بھی نظر نہیں آتی ۔ دوسری جو اپوزیشن جماعتیں ہیں انتخابات میں ان کا بھی ایک طرح سے صفایا کردیا گیا ہے ۔ وہی جماعتیں قدرے سانس لے سکی ہیں جن پر بی جے پی نے ابھی پوری توجہ نہیں کی تھی یا پھر وہ جماعتیں ابھی کوئی خطرہ محسوس نہیںکر رہی ہیں جو حکومت کے ساتھ ہیں اور اس کا حصہ ہیں۔ مابقی جو جماعتیں ہیں وہ بتدریج اپنے بقا کی جنگ لڑنے کیلئے مجبور ہوگئی ہیں۔ چاہے وہ کانگریس ہو یا اپوزیشن جماعتیں ہوں ‘ چاہے وہ این سی پی ہو یا پھر راشٹریہ جنتادل ہو تقریبا ہر جماعت انتخابات میں اپنی اہمیت سے محروم ہوگئی ہے ۔ صرف ڈی ایم کے نے بی جے پی کو کہیں بھی قدم جمانے کا موقع نہیں دیا ہے تو مغربی بنگال میں ممتابنرجی نے مقابلہ تو بہت اچھا کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی ان کے قلعہ میں دراڑ پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہوگئی ہے اور اس کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ اسی طرح تلنگانہ کو جنوبی ہند میں بی جے پی نے اب اپنا آئندہ نشانہ مقرر کیا ہے ۔ یہاں بھی برسر اقتدار جماعت بالواسطہ طور پر بی جے پی کی حلیف ہی رہی ہے لیکن اسے بھی بی جے پی کے منصوبوں کا احساس کرنا ہوگا ۔اترپردیش جیسی ریاست میں جہاں اقتدار کی دعویدار دو جماعتیں بی ایس پی اور ایس پی نے اتحاد کیا تھا انتخابات کی شکست کے بعد ان میںدوبارہ مخاصمت کا آغاز ہوگیا ہے ۔ اب دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر بی جے پی کی معاون ہونے کا الزام عائد کر رہی ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر اپوزیشن کی صفوں میں اسی طرح کا انتشار رہا اور اپوزیشن ایک شکست یا ایک کامیابی کی بنیاد پر اگر اتحاد کرتی ہے تو پھر آنے والا وقت اس کیلئے مسائل کا سبب ہی بن سکتا ہے اور اپوزیشن کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ بھی نبھانے میں یہ جماعتیں کامیاب نہیںہو پائیں گی ۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حوصلہ پیدا کرتے ہوئے اور عزم مصمم کے ساتھ یہ جماعتیں متحد ہونے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ ان کی بقا کی جنگ کیلئے ہی مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔