ایودھیا فیصلے کے دو مطالعے: ہندوتوا کو قانونی حیثیت فراہم کرنا یا ڈھانچہ کو مقام سے الگ کرنا

,

   

سپریم کورٹ نے ہندؤوں کو بطور عقیدت مند کمیونٹی اور مسلمانوں کو ’باہری لوگوں‘ کی ایک تاریخی شخصیت پر تصور کیاہے

دہلی۔مذکورہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے پر دو طریقہ سے تشریح کی جاسکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کو ہندوتوا کی حمایت میں ہندواکثریت پسندی کی ذہنیت کا سیاسی پہلو‘ جہاں پر بحث بھگوان رام کی جائے پیدائش پر بحث ہے جو ہندوعقائد کا حصہ ہے‘

جس کو بالآخر قانونی اہلیت حاصل ہوگئی ہے۔

دوسرا یہ کہ اس فیصلے کی اتنی ہی طاقتوررتکنیکی جہد موجود ہے‘ جس میں بابری مسجد کو متنازعہ سے ڈھانچہ قراردیتے ہوئے علیحدہ کرنے کا جرت مندانہ اقدام ہے۔

پہلا فیصلہ کو سیاسی طور پر سمجھنا مجموعی طور پر غلط نہیں ہے۔ ہندوتوا بالآخرکو اس کا تین رخی ایجنڈا حاصل ہوگیاہے‘

جس میں تین طلاق پر امتناع‘ جمو ں او رکشمیر سے ارٹیکل370کی برخواستگی اور ریاست کی مدد سے رام مندر اس مقام پر جہاں پر کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔

مگر یہ سادگی کے بجائے راست سیاسی تشریح ہے۔اس سے ہمیں سیاسی عمل کے احساس کو سمجھنے میں مدد نہیں ملتی‘ جو ہندوتوا کی جیت کا باعث ہے۔

اس کے بجائے ہمارے پاس پہلے سے موجودتفریق موجود ہے جو عقائد بمقابلہ قانو‘ قومیت بمقابلہ آزادنہ سونچ اور ایسے بہت کچھ چیز اس میں شامل ہیں۔

لہذا ہمیں سپریم کورٹ کے ایودھیا فیصلے اور سیاسی مفادات کے درمیان کے واضح فرق کو سمجھنا ضروری ہے جو تیار کیاجارہا۔

اس فیصلے کو سیاسی طور پر مسترد کرنے سے قبل اس کے چار تکنیکی پہلوؤں کاہمیں جائزہ لینا ضروری ہے