ایک اور این آر سی کا اعلان !

   

مرکز میں جن طاقتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ملک میں کچھ بھی کر گذرنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ آسام میں این آر سی لاتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کو غیر ہندوستانی قرار دیا گیا ۔ اب یہی عمل مغربی بنگال میں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ بی جے پی قائدین کے لیے گویا یہ اقتدار ایک نعمت سمجھا جارہا ہے ۔ اس قیادت میں ندامت و شرمندگی اور دستور کا پاس و لحاظ ہی نہیں ہے ۔ معاشرے میں برائی ، نفرت اور دشمنی کے غلبہ کو انتہائی درجہ تک لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ لے کر اقتدار حاصل کرنے والی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو یہ آواز فرقہ پرستوں کے شور و غل میں دبا کر رکھ دی جارہی ہے ۔ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس سربراہ اور چیف منسٹر ممتا بنرجی سے سیاسی دشمنی رکھنے والی بی جے پی قیادت نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ مغربی بنگال سے دراندازوں کو نکال باہر کرنے کے لیے این آر سی لائے گی ۔ سٹیزن شپ بل کے تعلق سے ممتا بنرجی نے عوام کو گمراہ کیا ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے عہدہ کے مغائر منصوبوں کو قطعیت دیتے ہوئے این آر سی کا ہتھیار تیز کرنا شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے کولکتہ میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے تمام ہندوؤں ، بدھسٹوں ، سکھوں اور جین پناہ گزینوں کو یقین دلایا کہ وہ اس ملک میں رہیں گے ۔ انہیں کوئی دھکہ نہیں پہنچایا جائے گا ۔ ان کی تقریر اور تیقن میں تمام مذاہب کے لوگوں کا ذکر کیا گیا صرف ’مسلمان ‘ لفظ اِن کی زبان پر نہیں آیا ۔ این آر سی لانے کا واحد مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس ( این آر سی ) کے منصوبہ کو آسام سے لے کر مغربی بنگال تک توسیع دینے کا اعلان ناپاک ارادوں کو واضح کرتا ہے ۔ متنازعہ این آر سی پر ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے امیت شاہ نے اپنی حکومت کی ترجیحات بیان کی ہیں ۔ ملک کے حالات سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو ہی دشمن قرار دینے کی سازش پر عمل ہورہا ہے ۔ بی جے پی ، آر ایس ایس یا اس مکتب فکر کی کوئی بھی قیادت کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سراسر دستور ہند کے برعکس ہیں ۔ لیکن آواز اٹھانے کی کوئی جرات نہیں کررہا ہے ۔ اگر کسی نے بھی آواز اٹھائی وہ صرف ڈھونگ ثابت ہوئی یا اپنے وجود کا احساس دلانے اور شہرت کے گراف کو اونچا کرنے کی نیت سے تھی حقیقت میں مسلمانوں کی فکر کوئی نہیں کررہا ہے ۔

خود مسلمان بھی اپنی فکر سے بے پرواہ دکھائی دے رہے ہیں ۔ مسلمانوں میں بے خبری اور کوتاہی کا مسئلہ اس قدر نازک ہوتا جارہا ہے کہ مستقبل کی رونما ہونے والی صورتحال کے لیے خود کو تیار کرنے کی فکر نہیں کررہے ہیں ۔ بی جے پی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر اس ملک سے نکالنے کی سازش کرچکی ہے ۔ اس پالیسی کی آڑ میں وہ چار ملین افراد کو گرفتار کر کے کیمپوں میں رکھنے کی تیاری کرلی ہے ۔ این آر سی کے خلاف اگرچیکہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور اسکالرس کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا ، لیکن اس احتجاج کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ بی جے پی حکومت نے ملک بھر میں این آر سی لانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس لیے سارے ملک کے مسلمانوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اسکالرس کو منظم طریقہ سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی اپنی حکمرانی کے ہر محاذ میں ناکام ہے ۔ اس ناکامی کو پوشیدہ رکھنے کے لیے وہ اپنے رائے دہندوں کے سامنے نفرت پر مبنی پالیسیوں کو ہی شدت سے نافذ کرنے کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جب حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوجائے تو یہ محسوس ہوجانا چاہئے کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کو بھی خسارہ سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ اگر حکومت مذہبی جذبات سے عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنانے میں کامیاب بھی ہوجائے تو اس کا خمیازہ خود بی جے پی کے رائے دہندوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ آج ملک میں مہنگائی خاص کر پٹرول اور پیاز کی بڑھتی قیمتوں نے عام آدمی کی معیشت کو دھکہ پہنچایا ہے ۔ یہ صورتحال ملک کو ایک بھیانک موڑ پر لے جارہی ہے ۔ ہندوستان میں بینک کاری نظام تباہی کی طرف ہے ۔ اب تک 14 بینکوں کے دیوالیہ کی خبریں سامنے آچکی ہیں ۔ یہ مسائل اہم ہیں ان سے عوام کی توجہ ہٹانے کا حربہ اختیار کرتے ہوئے بی جے پی حکومت سرپٹ دوڑ رہی ہے ۔۔