ایک خوش فکر شاعر ڈاکٹر منیر الزماں منیرؔ

   

غوثیہ سلطانہ ( امریکہ )
شاعر ہو یا ادیب اپنے معاشرے اور عصری حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ حالات حاضرہ کی منظر کشی ، رشتوں اور رابطوں کی تلخیوں کی گہرائی کو اندر سے محسوس کرتا ہے ۔ ہر نئے دور میں محسوسات نئے ڈھنگ میں ڈھلتے رہے ہیں ۔ غزل خارج سے داخل کی طرف محوسفر ہوئی جو ایک چھوٹے سے جگنو کی روشنی سے لیکر آفات تک بلکہ مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتی گئی ۔ غزل کا ہر ایک شعر اپنی جگہ ایک مکمل معانی رکھتا ہے ۔شعر محض شاعرانہ تخیل کا مظاہرہ نہیں ہوتا بلکہ شاعر کے عینی مشاہدات کا ترجمان بھی ہوتا ہے ۔
ایک دور وہ بھی تھا جب غزل کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا جاتا تھا لیکن آج اس فن کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ دنیا کی ہرچیز ایک مربوط نظام کے تحت ایک دوسرے کے سہارے سے حرکت میں ہے ۔ کوئی چیز اب منفرد و مجرد باقی نہیں رہی ۔ موجودہ دور میں فنکار کی انفرادیت گویا چراغ منزل کا کام دیتی ہے ۔
دراز اتنی ہوئی جورو ظلم کی دیوار
امیر شہر کو بھی شہر میں پناہ نہ تھی
منیرؔ کا انداز بیان سادہ لیکن موثر بلکہ سریع الاثر ہے ۔ ان کے پاس نئے عہد کے تقاضے ملتے ہیں۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہوتے ہوئے اپنے فن کو مختلف اصناف سخن تک وسعت دی ہے لیکن ان کے پاس ایک جامع صنف غزل ہی ہے ۔
اک نہ اک روز بدل دیں گے یہ دنیا ساری
عمر گزری ہے مگر سر کا نہ سودا بدلا
عصری حالات کی عکاسی واضح اور پر معنی ملتی ہے ، جمہوریت کا دور ہے مگر انسان ہر جگہ مشکلات سے دوچار نظر آتا ہے ۔ منیرؔ صاحب اپنے لب و لہجہ میں نرمی ، سلاست، روانی اور بے ساختگی کے ساتھ ساتھ ان سنجیدہ پہلوؤں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں جس سے غزل صحیح معنوں میں ان کے فن کا آئینہ خانہ بن جاتی ہے ۔ کہتے ہیں :۔
شعر میں ڈھل کے چلی آئے گی خود کاغذ پر
اپنی ہر بات خیالوں کے حوالے کردو
ادب برائے ادب کے اس دور میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس پُرآشوب دور میں شاعر نے سماج یا معاشرہ کو کیا دیا ہے ۔ منیرؔ کے پاس امن پسندی کے ساتھ ساتھ وطن پرستی اور زبان پرستی موجود ہے ۔ کہتے ہیں ۔
مری زبان ہے اردو یہ میری جان بھی ہے
مرے ہی ملک میں حق میری جان کا نہ ملا
یہ شعر محض شاعرانہ تخیل کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ زندگی کے مشاہدے کا ترجمان بھی ہے ۔ ان کے کلام کو پڑھ کر بیشتر اوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں خود ہمارے جذبات کی تفسیر بلکہ قاری کے دل کی آواز ہے ۔
آندھی بھی ہے طوفان بھی ہے تم کو پارا ترنا بھی ہے
دیکھو زندہ رہنا ہے تو تیر کے دریا پار کرو
ہجرت کے حوالے سے جب ہم پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے صدیاں گزرچکی ہیں۔ سچ یہی ہے کہ زمانہ سب سے بڑا استاد ہوتا ہے ۔ منیرؔ نے صنف غزل میںایک ایسی دنیا آباد کرنے کی بھرپور سعی کی ہے جس میں جدید عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وقت کے تقاضوں پر عمیق نظر کے ساتھ ان کا مقصد اعلیٰ سماج کی دکھتی رگ پر نشتر لگاکر ایک صحت مند احساس پیدا کرتا ہے۔یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں نئے رجحانات اور قدیم شعور کا امتزاج ہے۔
صلہ ملا بھی تو رسوائی کے سوا نہ ملا
بھٹک رہا ہوں ابھی تک میں راستہ نہ ملا
آزادی کے بعد سے آج تک جمہوری نظام مختلف پلٹیاں کھاتا آرہا ہے جس سے ماحول میں ایک گھٹن سی محسوس ہورہی ہے ۔ سانس لینا محال لگتا ہے ۔زخم پر زخم لگ رہے ہیں ، انسانیت مجروحہے ۔ منیرؔ کے پاس غزل کی روایت کے ساتھ دل کے عکس متشکل ہوتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے شعری سفر میں ایسے منازل و مقامات بھی آئے ہیں جہاں انہوں نے چہروں کو زخمی اور آئینوں کو چور چور ہوتے دیکھا ہے ۔ کبھی تو ان کا خون جگر بول اٹھتا ہے گویا الفاظ خاموش مگر ہنر بولتا ہے ۔
آگ بستی میں لگی کس نے لگائی ہے منیرؔ
بات کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں
ان کا کلام نرم آہنگ کا مالک اپنے ساتھ تازہ کاری لئے ہوئے ہے ، کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی گفتگو بھی شعروں میں ہی ہوتی ہے ۔ نثر سے زیادہ انہیں نظم پیاری ہے ۔ ان کے کلام میں زمانے کے مزاج دانی کا شعور ملتا ہے ۔ حالات حاضرہ کے اثرات ملتے ہیں ۔ ان کی فکر میں تھکن کا احساس نہیں ہے ۔ ان کی سوچ میں اونگھتا ہوا سورج نہیں بلکہ روز اُگتا ہوا نیا سورج ہے ۔ ایک سچے فنکار کی طرح انسانیت کی پارٹی کے سرگرم ممبر نظر آتے ہیں ۔
منزل اس کو مل جاتی ہے ، ہو کتنی دشوار منیرؔ
ایک ذرا سی ہمت ہو تو راہیں آپ نکلتی ہیں
انہوں نے حمد، مناجات ، نعت ، منقبت ، سلام ، غزل ، ربائی ، قطعہ ، ثلاثی ، گیت ، سانیٹ ، ہائیکو ، تری یولے ، غرض کہ اردو کے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ اردو کی سب سے زیادہ جاندار صنف سخن غزل ہی کہلاتی ہے ۔ غزل زندگی کے مسائل سے قریب تر ہوتی ہے ۔ غزل زندگی کے نشیب و فراز ، مصائب و آلام کے راستوں سے گزرتی ہوئی غم دواں کی دنیا میں داخل ہوتی ہے ۔ غزل اب صرف محبوب سے گفتگو ہی نہیں رہی ۔ لب ورخسار یا محبوب کے گیسوؤں کی بات ہی نہیں کرتی بلکہ غزل زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کا استقبال کرتی ہے ۔ انگریزی ادب سے آئے ہوئے کئی اصناف سخن اردو اب منتقل ہوگئے ہیں ۔ ہائیکو جاپان کے قدیم فن سے اردو ادب میں داخل ہوئی لیکن غزل کا مقام سرفہرست ہے ۔ اس زبان کے مستقبل سے ناامید نہیں ہے ۔ نئے تجربات کی پیشکشی سلیقہ اور ڈھنگ سے ہونی چاہیئے ۔ قدیم ادب کو پڑھنے اور جدید ادب کا مطالعہ کرنے سے صحیح راستہ ملتا ہے ۔ آج سے سوبرس بعد بھی جب نئی غزل کی تاریخ لکھی جائے گی تو زبان و بیان کی مٹھاس ،درد ، تڑپ کے ساتھ صحیح لفظوں کا استعمال اردوزبان کو زندہ رکھے گا ۔ ہندی غزل میں بھی غزل کے بہت اچھے امکانات موجود ہیں ۔ غزل کسی بھی رسم الخط یا زبان میں ہو غزل ہی رہنی چاہیئے ۔ محبت کی کوئی زباں نہیں ہوتی ۔ غزل ہی ایسی صنف سخن ہے جو باقی رہے گی ،جس کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں ۔
زندگی کے طویل سفر کے تجربات منیرؔ کے پاس محدود نہیں بلکہ ادبی کائنات تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کی شاعری انسانی زندگی کی تمام تر بوقلمیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے تجربات کی ایک دنیا آباد کرتی ہے ۔ ان کے پاس موضوع فن زندگی اوراس کی جزیات موجود ہیں ۔ ایک متجس شاعر کی صورت میں ان کی شاعری کے مدارج ہیں ۔ حقیقت پسند ہیں ،ان کی نظموں میں بھی تلاش و جستجو ہے ۔ ’’ نظم پھر ایک ہوجائیں ‘‘ کا آخری شعر ملاخطہ ہو ۔
چلوآؤ کہ ان کو پھر سنہرے خواب دکھلائیں
بھلادیں جو ہوا ، آؤ کہ ہم پھر ایک ہوجائیں
حال مقیم شکاگو کییہ ہنرمندتخلیق کار ،حیدرآباد دکن انڈیا کے باسی ہیں ۔ جہاں کا ہر گوشہ تاریخ کا ایک ورق ہے ، جہاں علمی و تہذیبی انفرادیت بجا طور پر ناز کرتی ہے ۔ اس سرزمین سے ایسے ہی فنکار نکلتے ہیں جن کی گھلی ہوئی آواز میں دلنواز لہجہ ہوتا ہے ۔ مجموعہ کلام ’’ صحرائی دھوپ ‘‘ کے منظوم دیباچے میں رحمن جامیؔ یوں رقم طراز ہیں۔
ہیں عشق کے اسیر منیر الزماں منیرؔ
کھائے ہوئے ہیں تیر منیر الزماں منیرؔ
محنت سے پیچھے ہٹتے نہیں ہیں کبھی بھی یہ
محنت کے ہیں ثمیر، منیرالزماں منیرؔ
تازہ مجموعہ کلام’’ جہان خرد‘‘ کے حوالے سے پروفیسر تراب علی یوں رقم طراز ہیں۔
’’منیر صاحب کی غزل گوئی کی نمایا ں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے غزل کی روشن روایت کو اپنی غزل میں فروزاں کیا ، اپنی غزل کے افکار و اظہار کو غم و غصہ کا برہنہ پیکر نہیں بنادیا ۔
بات یہ ہے کہ غزل میں کوئی جدت یا تجربہ تغزل کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا ، یہ اشعار ملاخطہ ہوں ۔
اک تبسم آپ کا کافی ہے جینے کیلئے
خواب بن کر ذہن میں لطف و کرم رہ جائے گا
کشتی مرے وجود کی طوفان بدوش تھی
لیکن ترے خیال نے ساحل بنادیا
مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہیوئے اختتام اس بات پر کرتی ہوں کہ منیرؔ کے کلام میں تازگی ، توانائی ، تاثیر و شعریت کے عناصر قاری کو متاثر کرتے ہیں ۔