بابری مسجد پر مصالحت ملکیت کی بنیاد پر ہونی چاہئے نہ کہ اعتقاد پر : مولانا سید ارشد مدنی 

,

   

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں جب بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ بحث میں آیا توعدالت نے ایک بار پھر فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ مصالحت کے ذریعہ معاملہ کوحل کرنے کی کوشش کریں ۔ اس پر مخالف فریق کے وکلاء نے عدالت سے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ مصالحت کیلئے با لکل تیار نہیں ہیں ۔ دوسری جانب جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو ڈھون نے تمام مسلم فریقین کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ وہ مصالحت کیلئے تیار ہیں ۔ فریق مخالف کے وکیل وشنو شنکر جین کے ذریعہ مصالحت کے مشورہ کی مسلسل مخالفت کرنے پر جسٹس ایس اے بوبڑے نے ان کی سرزنش کی او ر کہا کہ معاملہ کو پر امن طریقہ اسے حل کرنے کی کوشش کو وہ ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاملہ صرف حق ملکیت کا نہیں ہے بلکہ دو فرقوں کے کروڑوں عوام کے جذبات او راعتقاد کا ہے ۔ لہذا عدالت یہ کوشش کررہی ہے کہ اس کی نگرانی میں مصالحت کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ وکیل راجیو دھون نے کہا کہ اگر مخالف فریقین مصالحت کیلئے تیار نہیں ہیں تو عدالت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے انہیں مصالحت پر مجبور کرسکتی ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولاناسید ارشد مدنی ایک پریس نوٹ کے ذریعہ اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی تنازعہ یا مسئلہ آپسی بات چیت او رباہمی صلح سے حل ہوجائے تواس سے بہتر کچھ ہوہی نہیں سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اپنی نگرانی میں مصالحت کروانے کے حق میں ہے اس لئے عدالت کا احترام کرتے ہوئے ہم بات چیت او رصلح کیلئے تیار ہیں ۔

لیکن یہ بات چیت اعتقاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملکیت کی بنیاد پر ہونی چاہئے ۔ مولا نامدنی نے کہا کہ عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ یہ اعتقاد کا نہیں بلکہ ملکیت کا معاملہ ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جس طرح ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ایک تاریخی عبادت گاہ کو دن دہاڑے شہید کر کے ملبہ کا ڈھیر بنادیا اس سے ملک کے ان کروڑوں لوگوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے جو انصاف پسند ہیں او رملک کے آئین او ر جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں ۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہی قانون و انصاف کا تقاضہ ہے کہ جن لوگو ں نے آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر ایک عبادت گاہ کو شہید کردیا تھا وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور ان میں سے بعض تو اب آئینی عہدہ پر بھی فائز ہیں ۔