بابری مسجد کا قضیہ انصاف کا منتظر

   

مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام منسوب ۱۵۲۸؁ء میںفوج کے کمانڈر میر باقی نےبابری مسجدتعمیر کر وائی تھی۱۵۲۸؁ء سے۱۸۵۰؁ء تک اس پر عقیدہ یا آستھا کی بنیاد پر بعض غیر مسلم برادران وطن کا کوئی دعوی نہیں تھانہ اس بات کا کوئی دعوی تھاکہ مندر منہدم کر کے مسجد تعمیر کی گئی ہےتین صدیاںایسے بیت گئیںکہ اس دوران بابری مسجد کے عنوان سے ملک بھر میں کوئی شور و غوغا نہیں تھا ‘ انگریزوں نے ہندو مسلم کے درمیان تفرقہ کا بیج بونے کی غرض سے۱۸۵۷؁ء کو ہنومان گڑہی مسجد کی شہادت کے بعداس کو ہندؤں کےحوالے کیا پھر ۱۸۷۱؁ء میںایک منظم سازش کے ذریعہ بابری مسجدکو بھی اس قضیہ کا حصہ بنا دیا جبکہ ہندؤں کا اس پر کوئی دعوی نہیں تھابلکہ ان کا دعوی تو مسجد کے مقابل صدیوں سے پڑی ویران جگہ پر تھا جس کو وہ رام جنم استھان مانتے تھےاسی کورام چبوترے کا نام دے دیا گیا تھا ۱۸۶۳؁ء سے جس پر پوجا پاٹ کا سلسلہ جاری تھاچنانچہ ۱۸۸۵؁ء میںمہندر رگہویر داس نےمقدمہ دائر کر کے عدالت سے مذکورہ چبوترہ پرمندر تعمیر کرنے کی اجازت چاہی تھی اس مقدمہ میں ان کا دعوی بابری مسجد پر نہیں تھا کیونکہ وہ اس کو مسجد ہی مانتے تھے‘ وقف کی دستاویزا ت کی روشنی میںاس جگہ کا موقوفہ ہو نا ثابت ہونے کی وجہ یہ درخواست بھی عدالت نے مسترد کر دی تھی‘رام کا واقعی اس دنیا میں جنم ہو ا تھا یا وہ کوئی افسانوی دنیا کا کردار رہا ہے مورخین کے درمیان اس بارے میں شدید اختلاف پا یا جا تا ہے یہ وا قعہ کوئی چار ہزار سال قبل کا مانا گیا ہےتاریخی حیثیت سےاس کا کوئی حتمی ثبوت فراہم ہو نا ممکن نہیں کیونکہ یہ ماقبل تاریخ کا واقعہ ہے‘ہندوؤ ں کے اعتقاد کے مطابق ان کی مقدس کتابوں میں رام کے بھگوان ہو نےاور ان کی جائے پیدائش کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا‘ چنانچہ مارکنڈے کاٹجو جوپر یس کونسل آف انڈیا ( پی سی آئی) کے چیر مین رہ چکے ہیںاس عہدہ پر فائز ہونے سے قبل سپریم کو رٹ آف انڈیا کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہے‘سپریم کورٹ کے جج بنائے جانےسے قبل وہ دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہے ہیں‘الہ آباد ہائی کورٹ کے کار گزار چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی وہ نمایاں رول ادا کر چکے ہیں‘ انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ والمیکی کی سنسکرت میں جو اصل رامائن ہے اس میں رام کوئی خدا نہیں ہے بلکہ وہ ایک شہزادہ تھے جو بعد میں بادشاہ بنے ‘دہرادون کے ایک پروگرام کے دوران انہوں نے رام کو خدا متصور کر نے سے پرزور انکار کرتے ہوئےکہا کہ وہ ایک انسان تھے بھگوان نہیںتو پھر ان کا مندر کیوں بنایا جارہا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں نے برسوں حکومت کی ہےان کی رواداری ضرب المثل رہی ہےشہنشاہ بابر رعایا پر وری عدل گستری کو غیر مسلم مورخین نے بھی تسلیم کیا ہے با بر کے متعلق نہ توتاریخ میں مندر منہدم کر کے مسجد تعمیر کر نے کا کوئی اشارہ ملتا ہے نہ ہی اس کے بارے میں ایسا کوئی تصورکیا جا سکتا ہے‘ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوںکے نام ایک وصیت نامہ اسی سال لکھ چھوڑا تھا جس سال بابری مسجد کی تعمیر عمل میں آئی تھی ’’اے بیٹے ہندوستانی سلطنت مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے‘یہ اللہ سبحانہ تعالی کا شکر ہے اس نے ہم کو اس ملک کی بادشاہت عطا کی ہے ‘تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو‘اور مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو‘ خاص کر گائے کی قربانی سے احتراز کرو‘

اس سے تم ہندوستانیوں کے دلوں کو تسخیر کر سکو گےپھر اس ملک کی رعایا شاہی احسانات سے دبی رہے گی‘جو قوم حکومت کے قوانین کی اطاعت کرتی ہے اس کے مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرو‘عدل و انصاف اس طرح کرو کہ بادشاہ ‘رعایا سے اور رعایا ‘بادشاہ سے خوش رہے‘اسلام کی ترویج ظلم کی تلوار سے زیادہ احسانات کی تلوار سے ہو سکتی ہے …مختلف عقائد رکھنے والی رعایا کو اس طرح ان عناصر اربعہ کے مطابق ملاؤ جس طرح انسانی جسم ملا رہتا ہے تاکہ سلطنت کا ڈھانچہ اختلافات سے پاک رہے‘ یکم جمادی الاولیٰ ۹۳۵ھ(انڈیا ڈیوائڈڈ ص ۳۹ تیسراایڈیشن)شہنشاہ بابر کی مذکورہ وصیت نامہ کا ایک ایک لفظ اس کی مذہبی رواداری ‘ رعایا کے جذبات و احساسات کی پاسداری ‘منصف مزاجی‘ کا گواہ ہے‘ سلطنت میں امن و امان کی بر قراری ہر حال میںاس کے ہاںقابل ترجیح رہی ہے۔ پروفیسر سری رام شرما نے اپنی کتاب( مغل امپائر آف انڈیا ج ۱ ص ۵۴۔۵۵ (ایڈیشن۱۹۴۵ ء))پر یہ وصیت نامہ درج کر کے لکھا ہے کہ ہم کو کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا‘ اور کسی ہندو کی محض اس لئے ایذارسانی کی کہ وہ ہندو ہے‘ جناب رام پرشاد کھوسلہ پٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے انہوں نے ۱۹۳۴ ؁ء میں مغل کنگ شپ اینڈ نو بیلٹی لکھی اس میں بابر کے اوصاف کا ذکر کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ بابر کے تزک (انتظام حکومت و قوانین سلطنت) میں ہندوؤں کے کسی مندر کے انہدام کا ذکر نہیں ملتا اور نہ یہ ثبوت ملتا ہےکہ اس نے غیر مسلموں کا قتل ان کے مذہب کی وجہ سے کیا ہو ‘ وہ نمایاں طور پر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بری تھا (ص : ۲۰۷ ) مغلوں کے آخری دور کے مورخ سبحان رائےاپنی کتاب خلاصۃ التواریخ میںلکھتے ہیں’’ در داد وعدل مبالغہ مرمودے‘‘یعنی وہ مبالغہ کی حد تک داد و عدل کا قائل تھا‘ سوال یہ پیدا ہو تا ہے ایسا انصاف پسند حکمراں کسی مندرکو کیوںکر مسمار کر سکتا ہے؟الہ آباد یونیورسٹی کے ڈاکٹر رام پرشاد ترپاٹھی اپنے زمانے کے مشہور مورخ گزرے ہیں۔انہو ں نے اپنی تصنیف رائز اینڈ فال آف مغل امپائر میں لکھا ہے’’بابر میں مذہبی جنون نہیں تھااس کا رویہ ہندو‘ افغانی‘ امراء اور رعایا کے ساتھ مہذبانہ‘ شریفانہ اور دوستانہ تھا‘‘افسوس سیا سی مقصد براری کی غرض سے ہندوستان کی ایسی دلکش ‘دلآویز ‘ رعایا کی محسن اور محبوب شخصیت کو بابری مسجد کے عنوان سے داغدار کر نے کی منصوبہ بندسازش رچی گئی اور مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی کے مفروضہ عنوان سے سیاسی بازیگری میں الجھا دیا گیاہندوستان کی روادارنہ فضا کو مکدر کر نے اور نفرت کا زہر گھول کر ہندو مسلم بھائی چارہ میں دراڑ پیدا کر نے میں اڈوانی جی کی رتھ یاترا نے بڑا غضب ڈھایاہےاورخلاف واقعہ اس بات کو بڑی شہرت دے دی گئی ہےکہ بابری مسجد مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی ہے اس فرضی بنیاد پر بالآخر۶ ڈسمبر ۱۹۹۲؁ء جنونی رام سیوکوں نےبابری مسجد شہید کر دی‘بابری مسجد چونکہ کسی غصب شدہ زمین پر یا مندر مسمارکر کے نہیں بنائی گئی ہے تاریخ گواہ ہے کہ اس مسجد کی حیثیت ایک اسلامی اور شرعی مسجد کی ہےاور قیامت تک مسجد رہے گی‘

جبر و ظلم سے مسجد ڈھا دی گئی ہو اور اس جگہ انصاف کا خون کر کے مورتیاں رکھ دی گئ ہوںاور پوجا پاٹ کا سلسلہ جاری ہو تو اس سے اس کی شرعی مسجد ہونے کی حیثیت ہر گز ختم نہیں ہو سکتی‘مسجدشرعی کے ساتھ اس طرح کا جابرانہ و ظالمانہ اور جارحانہ سلوک مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسلام کے مذہبی شعائرکی توہین کامجرمانہ ارتکاب کیا گیاہے اس لئے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ بابری مسجدسانحہ کے ذمہ دار انسانیت دشمن مذہبی و سیاسی قائدین اور ان کے بہکاوے میں آکرملک کےآئین و قانون کو ہاتھ میں لے کر ظلم و بر بریت کامظاہرہ کر نے والے تقریبا ڈیڑھ لاکھ انسان نما راکشسوںپرمقدمہ چلایا جاتا او ر ان کو ان کے جرم کی قرار واقعی سزا دی جاتی تاکہ آئندہ کوئی ملک میں مو جود مذہبی عبادت گاہوں کی خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں بے حرمتی کر نے کی جرات نہ کر سکےلیکن افسوس دن کے اُجالے میں دستور و قانون کی دھجیاںبکھیرنے والےنہ صرف آزاد و محفوظ ہیں بلکہ وہ بابری مسجد کے انہدام کی پاداش میں جیل کی سلاخوں میں بند ہونے کے بجائےتخت و تاج کے مالک بنے بیٹھے ہیں‘ ہندوستان جیسے سیکولر ملک کی تاریخ میں یہ ایک سیاہ باب ہےجس سے اس ملک کا ہر جمہوریت پسند شہری رنجیدہ و مغموم ہےاس حادثہ نے جہاں دنیا بھر کے ممالک میں اس ملک کی جمہوری شناخت کو مجروح کیا ہے وہیںانسانیت‘ مروت‘ اعلی اخلاق‘انسانی و سماجی اقدارکو پامال کیا ہے‘ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ کئی ایک مظلوم مسلمانوں کی شہادت کے سانحہ میں تبدیل ہو گیامسجدکی نسبت سے مجروح و زخمی دلوںکا درد لئےپر امن احتجاج کر نے والوں کے زخمی دلوں پرہمدردی و محبت کا مرہم رکھنے کےبجائےحکومت اور پولیس کے ذمہ داروں نےنہ صرف گولیاں بر سا کر نمک پاشی کا کام کیا ہےبلکہ ان کے قتل و خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ کر کئی ایک باعزت خواتین کو بیوگی کی چادرمیں لپیٹ دیا ہے اور کئی ایک معصوم نونہالوں کو یتیمی کا داغ سہنے پر مجبور کر دیا ہے۔

بابری مسجدسے متعلق الہ آبادہائی کورٹ نے ۲۰۱۰؁ء میں۲۷۷ ایکڑ اراضی تین فریقوں میں تقسیم کر دی تھی جو سراسرانصاف کے مغائر تھااور اب حال ہی میںسپریم کو رٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے چالیس روز تک مسلسل اس مقدمہ کی سماعت کی اور دنیا کے سب سے قدیم عدالتی دیوانی تنازعہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کر دیا ہے‘امید کی جارہی ہے کہ وسط نومبرموجودہ چیف جسٹس رنجن گوگئی کے اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے سے قبل یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا آنے والا ہے وہ اس وقت پردہ ٔ غیب میں ہے‘مقدمہ کے ہر فریق کایہ احساس کہ مقدمہ ان کے حق میں ہو گاتاہم مسلم فریق دلائل و شواہد سے لیس ہےاورغیر مسلم فریق کے ہاں ملکیت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ہے وہ صرف فرضی آستھا و عقیدہ کی بنیاد پر دعویدار ہے‘اس لئے مسلم فریق فیصلہ اس کے حق میں ہونے کا یقین رکھتا ہو تو وہ اس میں حق بجانب ہے‘ملک کی اعلی عدالت سے یہی توقع ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کی لاج رکھے گی پھر ایک مرتبہ اس سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو حوصلہ ملے گا‘عدل و انصاف کو فتح حاصل ہو گی ‘اور ساری دنیا میں ہندوستان کی عدلیہ کا نام روشن ہوگا‘ الغرض فیصلہ جو بھی آئے مسلمانوں کو ہر حال میں ملک کی اعلی عدالت کے فیصلہ کا احترام کر تے ہوئے ملک کی سالمیت او ر اس کی جمہوری قدروںکو پیش نظر رکھتے ہوئے امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھنے میں اپنا انسان دوست کر دار ادا کرنا چاہیے ۔ بڑی روحانی مسرت و خوشی کے ساتھ یہ بات سنی جائے گی کہ اس مقدمہ کی پیروی میں سب سے زیادہ نمایاں رول ادا کر نے والی شخصیت ہمارے ملک کی ایک قدآور انصاف پسند غیر مسلم بھائی کی ہےجن کا نام ڈاکٹر راجیو دھون صاحب ہےجوہندوستان کے مشہور و معروف ایڈوکیٹ ہیںاور وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃالعلماءہند کے مشترکہ وکیل رہے ہیںجنہوں نے اور مقدمات کو چھوڑ کرپوری کامل توجہ کے ساتھ اس مقدمہ کی پیروی وہ بھی انسانی و اخلاقی بنیادوں پر کی ہے انہوں نے اس مقدمہ کی کوئی فیس نہیں لی باوجود یہ کہ وہ پنڈت خاندان سے تعلق رکھتے ہیںپھر بھی انہوں نے اس مضبوطی سے اس مقدمہ کی پیروی کر تے ہوئےایسی مدلل ومضبوط بحث کی ہےکہ شاید وباید ہی کوئی اورایسی بحث کر سکتا‘ وہ نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ ہندوستان کے جمہوریت پسند سارے شہریوں کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں‘ ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا گو ہیں کہ ان کو اپنے فضل و کرم سے ایسی جزا ملے جو ان کو خالق و مالک کے محبوب و پسندیدہ بندوں کی صف میں جگہ دے۔آمین