باغی سعودی خاتون نے برقعہ کے لزوم کوکیانظر انداز

,

   

اس کی اونچی ہیل کی ماربل کے پتھروں پر آواز یں تھیں‘ ایک منحرف سعودی عورت ریاض کے ایک مال میں بغیر برقعہ زیب تن کئے اور اپنے سر کو نقاب سے ڈھانکے بغیر داخل ہوئی

ریاض۔خواتین کے لئے کپڑوں کے اوپر عام طور پر پہنے جانے والے برقعہ قدامت پسنداسلامی مملکت میں استعمال لازمی ہے‘ جس کو عام طور پر خواتین میں تقوی کے علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پچھلے سال ولی عہد محمد بن سلمان نے سی بی ایس کو دئے گئے ایک انٹرویو کے دوران اس با ت کا اشارہ دیاتھا کہ لازمی لباس میں راحت دی جائے گی اور ساتھ میں کہاتھا کہ اسلام میں یہ لباس لازمی نہیں تھا۔

ان کی آزادنہ سونچ پر مشتمل کے باوجود مذکورہ عمل باقاعدہ طور پر کسی حکم نامہ کے بغیر جاری ہے۔

بعدازاں کچھ عورتیں شاذ ونادر انداز کا سوشیل میڈیاپر مذکورہ تحدیدات کے خلاف احتجاج کیا‘ جس میں انہوں نے اپنی وہ تصویریں ڈالیں جو بناء برقعہ کے عام لباس میں ہیں۔

قدمت پسندکی جانب سے بھڑکائے جانے کے خدشات کے باوجود کئی دیگر قدیم روایت کو چھوڑ کر رنگ برنگے کپڑے بناء کسی حجاب کے پہن کر گھومتے نظر آرہے ہیں۔

ایسے لوگوں میں ہی مشائیل الجالود بھی شامل ہیں جس نے ایک قدم آگے بڑھے برقعہ پہننا ہی بند کردیاہے۔

حیران کردینے والے اپنے اقدام میں مذکورہ 33سالہ انسانی وسائل کی ماہر نے پچھلے ہفتہ ریاض کے ایک مال میں بناء برقعہ کے نارنگی رنگ کا ٹاپ اور باگی ٹراوز زیب تن گھومتی او رپھرتی دیکھائی دیں۔

وہاں پر موجود لوگوں میں کچھ انہیں دیکھ کر چیہ میگوئیاں کرنے لگے اور اپنی بھونیں چڑھا لیں۔ عورت سر سے پیر تک خود کو برقعہ میں ڈھانکے ہوئی تھیں۔ کچھ لوگوں نے انہیں مشہور شخصیت سمجھ لیا۔

ان کے بازو میں چلنے والی ایک عورت نے استفسار کیاکہ ”کیا آپ مشہور شخصیت ہیں“اور پوچھا کہ ”کیا آپ ماڈل ہیں؟“جالود نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ وہ عام سعودی عورت ہیں۔

اور کہاکہ ”میں صرف زندگی گذارنا چاہتی ہوں“۔جالود ان مٹھی بھر خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے حال مہینوں میں برقعہ زیب کرنا چھوڑ ا ہے۔

مگر یہ رحجان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نوجوانوں سعودی کی سماجی آزادی آگے بڑھ رہی ہے کہ جس کے پاس مملکت کی بادشاہت کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اسی طرح ایک اورسماجی کارکن 25سالہ مناہیل الاتائبی نے بھی برقعہ کا استعمال چھوڑ دیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ”چارماہ کاعرصہ گذارگیا ہے میں ریاض میں بغیربرقعہ کے رہ رہی ہوں“۔ پچھلے کچھ سالوں میں ولی عہد محمد بن سلمان نے قدامت پسندمملکت کی شبہہ کو تبدیل کرنے کے لئے سنیما تھیٹروں کومنظوری دی‘

مشترکہ کنسرٹ کو اجازت دی اور خواتین کے لئے بڑی آزادیوں کا بھی اعلان کیاجس میں ان کا ڈرائیونگ کرنا بھی شامل ہے۔

لبرالائزیشن کے حصہ کے طور پر مملکت نے بین الاقوامی میوسیقی کار اورسنگروں کو بھی مدعو کیاتھا جس میں نیکی مناج کا بھی نام شامل ہیں