بدلتے موسم اور رحیم انور

   

ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
ضلع نظام آباد کے بعد بودھن اور ضلع کاماریڈی اُردو ادب کا مسکن رہے ہیں۔ کاما ریڈی کی سرزمین سے نامور اُساذ شاعر عمر ضیا ؔجبلپوری محترم محبوب علی محبوب اور ممتاز نثر نگار جناب رحیم نے اُفق ادب پر اپنی منفرد پہچان بنائی اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ ضلع کاما ریڈی کا نام خوب روشن کیا۔ محترم ضیاؔ جبلپوری اور جناب محبوب علی محبوب آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ لیکن اُن کا فن اور اُنکی ادبی خدمات کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔یہ لوگ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج ضیاؔ صاحب اور محبوب صاحب کی غیر موجودگی میں رحیم انور ادب کی شمع کو جلائے ہوئے ہیں۔ اور برسوں سے یہ اُردو زبان کے گیسوؤں کو سنوارتے ہوئے محسنِ اُردو ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ضلع کاماریڈی میں انہی کے دم سے ادبی رونقیں اور ادبی محفلیں آباد ہیں۔
رحیم انور پچھلے چار دہوں سے مسلسل منی کہانیاں اور اَفسانچے لکھ رہے ہیں۔ اِنہوں نے اپنی ادبی و فنی صلاحیتوں کے بل بُوتے پر اپنا نام کامیاب نثر نگاروں کی فہرست میں درج کروالیا ہے۔ اِن کی دابی کاوشوں و صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے تلنگانہ اسٹیٹ اُردو اکاڈیمی نے انہیں ایوراڈ و توصیف نامے سے نوازا ہے۔ ضلع کلکٹر نظام آباد کی جانب سے بھی انہیں ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس کے علاوہ ضلع نظام آباد کی فعال و کارکرد کہکشاں سوسائٹی اور حیدرآباد کی باوقار بزم، بزمِ علم و ادب نے بھی اِن کی ادبی صلاحیتوں و ادبی کارناموں کے عوض انھیں ایوارڈ و سرٹیفکیٹس سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود بھی راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ رحیم انور کی سرکاری سطح پر اور اُردو کی ادبی انجمنوں کی جانب سے ویسی پذیرائی ویسا استقبال ویسا سمان نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیئے تھا۔ از روئے ایک سینیر ادیب کا مسلسل چالیس برسوں سے اپنی تحریروں کے ذریعہ اُردو ادب کی خدمت کر رہا ہے اُس کے فن کا اعتراف آٹے میں نمک کے برابر یہ تو سر اسر ناانصافی ہے اور زبان و ادب کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ رحیم انور کو ریاستی اُردو اکاڈیمی سے کارنامہ حیات ملنا چاہیئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اتھیں ضلع کاماریڈی پر مقامی ادیب ہونے کی حیثیت سے کلکٹر کی جانب سے بہترین قلم کار کا ایورڈ بھی مِلنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ اُردو کی ادبی انجمنوں کوآگے آکر ان کی ادبی کاوشوں و اِ ن کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں یہ احساس دلانا چاہیئے کہ آج ہماری نام نہاد سوسائٹی و معاشرہ میں اُردو قلم کار کا بھی وہی مقام اور مرتبہ ہے جو دیگر زبانوں کے ادیبوں کا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ آج اُردو کے ادیبوں و شعراء کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ نہ ہی انھیں حکومت کی خاطر خواہ سرپرستی حاصل ہے اور نہ اُردو کی فعال و کارکرد انجمنیں جو اُردو زبان کا دم بھرتے ہوئے نہیںتھکتی اور نہ ہی اپنے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے تیار ہیں۔ بقول شاعر
بے وفاؤں سے وفا کر کے گذاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح
آج کے شورش زدہ و مطلبی ماحول میں کسی ادیب یا شاعر کو اُس کا مستحق مقام ملنا تو دور کی بات ہے، اُلٹا سرکاری اداروں میں کُھلم کھلا اُسکی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اُسے حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد سے بھی محروم کردیاجاتا ہے۔ جسکی وجہہ سے فنکار کے اندر ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ احساسِ کمتری کے مرض میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ ڈر اور خوف کے عالم میں اُس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے اور اُس کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس دل دہلادینے والے حالات میں بھی رحیم انور ثابت قدم رہے اور اپنے قلم کی روشنائی قرطاس پر بکھیرتے رہے۔ اپنے حوصلے اورا پنی ہمت کو ٹوٹنے نہیں دیا اس بات کا ثبوت اِنکی گیارہ تصانیف ہیں۔ جو آج قارئین کے ہاتھوں میں ہیں۔ رحیم انور کی سبھی تصانیف کو ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوتی رہی ہے جس کی وجہہ سے اِن کے اندر موجودہ قلم کار کو مزید لکھنے کا حوصلہ ملتا رہا۔ اِنھوں نے اپنی ادبی صلاحیتوں کے ذریعہ خو د ادب میں اپنے مقام کا تعین کرلیا بقول شاعر

میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لو نگا
مجھے مقام نہ دو میں مقام لے لو نگا
رحیم انور نے اپنے قلم کے ذریعہ اپنی کہانیوں و افسانچوں کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی گندگی ، برائی، بے حسی، بزدلی ،کاہلی و بدامنی پر ضربیں لگاتے رہے اور خواب غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کی کوشش کرتے رہے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آج کے گھٹن زدہ ماحول میں جینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس انتشار و بے کلی کی کیفیت کو ایک ادیب یاشاعر اپنے قلم کے ذریعہ دور کرسکتا ہے۔ اور یہ کارخیر رحیم انور برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اِب تک اِن کی گیارہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔ یادوں کے سائے، آواز کا دور، اُس موڑ سے ، ہم کہاں کہاں سے گذرے، بوند بوند سمندر، احساس کا سفر، سلگتے لمحات، میرے اِفسانچے اور مشاہیر ادب، کاما ریڈی حال اور ماضی کے آئینہ میں، زخم زخم زندگی اور بدلتے موسم۔ اِن سبھی تصانیف میں آج کے دور میں رونما ہونے والے حادثات ، واقعات اور حالات پر مصنف نے مختلف عنوانات کے ذریعہ اِفسانچے اور منی کہانیاں لکھی ہیں، جو ہمارے اس معاشرہ کی مُنہ بولتی تصویریں ہیں۔ مصنف نے جہاں معاشرے کی خامیوں اور ناہمواریوں پر اپنے قلم کے ذریعہ نشتر زنی کی ہے وہیں اپنی بے لاگ تحریروں کے ذریعہ ہمارے سماج کو ایک پیام ایک مسیج بھی دیا ہے۔ اِمن کا بھائی چارے کا، محبت کا، اِخوت کا، حب الوطنی کا، قومی یکجہتی کا، اتحاد کا، آشا کا ۔ اِن کے اَفسانچوں کو پڑھ کر قاری دیر تک اِنکی تحریروں کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔ اور وہ یہ سونچنے لگتا ہے کہ مصنف نے ایک مختصر سی کہانی میں اتنے بڑے پیچیدہ نکتہ کو کیسے کہہ ڈالا۔ دھیرے دھیرے قاری کا ذہن مصنف کے ذہن سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے۔ اور وہ مصنف کے فن کا اُس کی سونچ و فکر کا قائل ہونے لگتا ہے۔ جو ایک کامیاب قلم کار کی پہچان ہے۔ رحیم انور نے بھی اپنے قاریوں کو اپنے فن سے اپنے اُسلوب سے اپنا ہمنوا بنا کر ادبی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔

آئیے اَب رحیم انور کی تصنیف ’’ بدلتے موسم ‘‘ سے متعلق بات کی جائے جس میں ان کے قریب (126) افسانچے شامل ہیں۔ جو سلگتے ہوئے اہم موضوعات پر لکھے ہیں۔ راقم نے انکے سبھی افسانچوں کا مطالعہ دلچسپی کے ساتھ کیا ہے۔ اور اِن کی سلجھی ہوئی تیکھی تحریر نے راقم کو بے حد متاثر کیا ہے۔ خاص کر اَفسانچہ کے اختتام پر ان کے چونکادینے کے انداز نے اَفسانچہ کی ہیئت اور کیفیت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ راقم بھی دیگر دانشوروں اور نقادوں کی اس بات سے پوری طرح سے اتفاق رکھتا ہے کہ کسی بھی اَفسانچہ کی آخری لائین یعنی کلائمکس چونکا نے والا ہونا چاہیئے اگر اَفسانچہ نگار کو اپنے اِفسانچہ میں چونکا نا نہیں آتا یا وہ چونکا دینے کے مخصوص فن سے واقف نہیں ہے تو پھر اَفسانچہ بے جان اور کمزور لگے گا۔
رحیم انور نے اپنے تقریباً سبھی اَفسانچوں میں قاری کو چونکا دیا ہے اوراپنے اَفسانچوں کو اَثر انگیز بناکر یہ تاثر دیا ہے کہ وہ چونکا دینے کے فن سے خوب واقف ہیں اسی لیئے انھیں اِن کے ہمعصر اَفسانچہ نگار ایک منجھا ہوا اَفسانچہ نگار تسلیم کرتے ہیں، جس نے کبھی اپنے فن سے اور اپنے قلم سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ میں چند مشہور نقادوں، دانشوروں اور ممتاز قلم کاروں کے تاثرات پیش کرنا چاہونگا تاکہ میں اپنی بات کو اپنی رائے کو ثابت کر سکوں۔ (۱ ) نامور نقاد و دانشور ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید رحیم انور کے اَفسانچوں سے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ اچھا لکھتے ہیں بعض تخلیقات بے حد پسند آئیں یقین ہے آپ کا فن اور نکھرے گا ، آپ کے اَفسانچے عصری جہت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ زبان و بیان پر قابو کے باعث قاری پڑھتے ہوئے جاذبیت محسوس کرتا ہے‘‘۔ نامور قلم کار و اَفسانچہ نگار جوگندر پال لکھتے ہیں ’’ وضاحتوں کا کام قاری پر چھوڑ دینے سے اَفسانچہ بڑا سڈول نکلتا ہے۔ آپ کے بیان میں وہ اَفسانچے زیادہ چست اور بہترہیں جہاں آپ نے وضاحت سے احتراز برتا ہے اور اپنی بات چپ چاپ کہہ جانے پر حاوی ہیں۔‘‘ پروفیسر فضل اللہ مکرم رقمطراز ہیں ’’ موضوع کا تنوع قابل تعریف ہے آپ ذاتی تجربے اور گہرے مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہوئے چلتے پھرتے کرداروں کی تخلیق کرتے ہیں جو ایک بہت بڑی خوبی ہے یہ کردار جو حقیقی نہیں ہمارے ساتھ سماج میں موجود ہیں۔‘‘ ڈاکٹرطیب انصاری گلبرگوی رحیم انور کے اَفسانچوں سے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کی کہانیاں زندگی کی کرچیاں ہیں تیز اور چھبتی ہوا میں آپ نے اپنے قلم کا رشتہ زندگی سے وابستہ رکھا ہے۔ یہی آپ کی کامیابی بھی ہے لکھئیے اور خوب لکھیئے۔‘‘ ڈاکٹر محسن جلگانوی اپنی بات یوں رکھتے ہیں ’’ مجھے محسوس ہوا کہ آپ کے اندر ایک ایسا تخلیق کار چھپا ہے جس کی تیسری آنکھ بہت دور ہے۔ سماج کے مسائل کو برقی روکی طرح چھوتی چلی جاتی ہے اس عمل میں ایک ایسی چھبن ہے جوبعض اوقات آنسو آنکھ کی پتلیوں میں آکر لگ جاتے ہیں یہ بھی اک حقیقت ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ ہی کاما ریڈی کا نام یاد کیا جاتا ہے۔ ‘‘ مشہور نقاد و قلم کار ساحر ندیم چکھلی لکھتے ہیں ’’ آپ اَفسانچے لکھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ اور اس کے فنی رموز سے بخوبی واقف ہیں اپنی مختصر تحریروں میں دریا کو کوزے میں سمونے کا فن آپ میں بدرجہ اُتم موجود ہے ۔‘‘ کھنڈوا مدھیہ پردیش کے نامور شاعر وادیب سکندر عرفان لکھتے ہیں ’’ ساری کہانیاں ہمارے معاشرے کے ارد گرد گھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ آپ اچھوتے مضامین کی تلاش کرتے رہتے ہیں اس میں دیر سہی مگرکئی منزلوں سے ہمکنار ہونے کا موقع ملے گا۔ بہر کیف یہ مرحلہ بھی اُمید افزاء ہے اہل فن آپ کے فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘ آخر میں میں ایک معتبرو مستند ادیب و نقاد کی رائے کو پیش کرنا چاہوں گا جنھیں دنیائے ادب غضنفراقبال سہروردی کے نام سے جانتی ہے جو گلبرگہ کرناٹک کے رہنے والے ہیں ’’ اَفسانچہ یہ ایسی صنف ہے جس میں کم لفظوں میں فن کا رقلمی دھماکے کر سکتاہے کیوں نہ ہو اس صنف میں جوگیندر پا ل صاحب نے رواج دیا ہے آپ بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اچھے اَفسانچے لکھتے ہیں۔ مجھے آپ کے کئی اَفسانچے پسند آئے ۔‘‘ مندرجہ بالا قلم کاروں ، دانشوروں، نقادوں اور اہل فن داں نے رحیم انور کے اَفسانچوں سے متعلق اِن کے فن سے متعلق اپنی مستند و حقیقی رائے دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ رحیم انور ایک سلجھے ہوئے معتبر اَفسانچہ نگار ہیں۔اَب ان کے چند تحریرکردہ اَفسانچوں کو نقل کیا جانا چاہیئے تاکہ قارئین کو پتہ چلے کہ ہماری اور دیگر قلم کاروں کی رائے میں کتنی سچائی ہے۔ یہ اَفسانچے ان کی زیر نظر تصنیف’’ بدلتے موسم‘‘ سے اخذ کئے جارہے ہیں۔ پہلا اَفسانچہ ’’سبگدوشی‘‘ وہ زندگی سے عاجز آچکا تھا مرنا چاہتا تھا۔ لیکن گھر کی ذمہ داری کا بوجھ تھا۔ جب وہ گھر کے تمام افراد کے کاموں سے سبگدوش ہوگیا تو خوش و مطمئن تھا۔ لیکن گھرکے افراد اس سے دامن بچا رہے تھے۔ اِس لئے کہ وہ تمام ذمہ داریوں سے سبگدوش ہو گیا تھا۔ ‘‘ دوسرا اَفسانچہ ’’ اندھیرے کے ساتھی ‘‘ وہ دونوں پلیٹ فارم پر رکھی بنچ پر روز ہی نظر آتے پھر شام کے سائے گھر کی جانب انہیں لے جاتے۔ لیکن اس انجانے رشتہ کو کوئی نام نہ مل سکا۔ اس لئے کہ یہ ’’ درد کا رشتہ ‘‘ تھا۔ تیسرا اَفسانچہ ’’ خواہش‘‘ اس نے اندھے شخص کو سڑک پار کروایا اور کہا کہ اگر آپ کی آنکھیں آپریشن کے بعد اچھی ہوجائیں گی تو سب سے پہلے کسے دیکھنا پسند کریں گے۔ ’’تمہیں‘‘ اس اندھے نے برجستہ کہا۔ ’’ لیکن کیوں ‘‘ اس نے حیرت سے کہا ’’ کیونکہ تمہارے مرمریں ہاتھوں کو جب سے چھوا ہے یہ خواہش دل میں جاگی ہے ۔‘‘ اندھے نے لڑکی کو جواب دیا۔ ‘‘ چوتھا اَفسانچہ ’’ پستی’’ معاشرہ اصلاح کمیٹی کے صدر نے اپنی بیگم سے تشویش بھرے لہجے میں کہا ’’ سُنا تم نے اپنی گلی کے جُمن میاں کی لڑکی کل شام سے لاپتہ ہے۔ بیگم نے کہا ہمارا لڑکا بھی تو کل رات سے گھر نہیں آیا ہے۔اور گلی کے لوگ کہہ رہے تھے کہ … بیگم کی آواز حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی اور صدرصاحب کو ایسا لگا کہ کوئی بلند و بالا عمارت سے انہیں نیچے پھینک دیا ہو۔ ‘‘پانچواں اَفسانچہ ’’ خوشحال‘‘ وہ تہنیتی تقریب سے ہاتھ میں ہار لٹکائے اور شال لئے گھر پہنچا تو اُسے یقین تھا کہ گھر والے اس کی خوشی میںشامل ہوں گے۔ لیکن بیوی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کاش یہ صلاحیتیں کسی اور طرف لگاتے تو گھر میں خوشحالی ہی خوشحالی ہوتی، ماں کی اس بات پر بچے حیرت سے باپ کو دیکھے جارہے تھے جو ایک بڑا شاعر، ادیب تھا۔جس کے چہرے پر اُداسی پھیلی ہوئی تھی۔‘‘ مندرجہ بالا اَفسانچوں سے اندازہ لگایا جاسکتاہے اک اَفسانچہ نگار یا ادیب کس قدر حسّاس اور درد مند ہوتا ہے۔ اُسے معاشرہ کی کس قدر فکر ہوتی ہے۔ وہ سماج کے ہر زاویہ پر اپنی گہری نظر رکھتا ہے۔ اور اپنے احساسات کو اپنے جذبات کو اپنی سونچ کو اپنی فکر اپنے قلم کے ذریعہ ایک اَفسانچے میں ایک کہانی میں پرو کر لوگوں کے سامنے رکھتا ہے۔ آج کے اس مکار، لالچی و ملاوٹی دور میں ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس کام میں قطعی ملاوٹ کا دخل نہیں ہے۔ کسی بھی فنکارکا فن بالکل خالص ہوتا ہے۔ اُس میں قطعی ملاوٹ نہیں ہوتی۔رحیم انور کی تصنیف ’’بدلتے موسم‘‘ کے سبھی (126) اَفسانچے و منی کہانیاں ہمارے سماج کا درپن ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔ ہماری مکاری و کمینے پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ رحیم انور نے سبھی اَفسانچوں پر سخت محنت کی ہے۔ ان کی زبان ان کا بیان سیدھا سادا اور رواں دواں ہے۔ جو کسی بھی قاری کی سمجھ میںآسانی کے ساتھ آجائے گا۔ سلگتے موضوعات پر انھوں نے بڑے ہی خوبصورت اَفسانچے تحریر کرتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔ اِن کی یہ تصنیف ’’بدلتے موسم‘‘ کو بھی ان کی دیگر تصنیفوں کی طرح ادبی دنیا میں خوب مقبولیت حاصل ہوگی۔ خوبصورت ملٹی کلر ٹائٹل سے لیس (112) صفحات کی یہ کتاب ادب میں یقینا ایک اِضافہ ہے۔مصنف نے قیمت (100) روپئے رکھی ہے جو واجبی ہے۔ میں اپنی نیک تمنائیں رحیم انور کو پیش کرتے ہوئے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
رستہ بدل کے دیکھا بھی مگر وہ شخص
دل میں اُتر کے ساری حدیں پار کرگیا