بلقیس بانو کیس۔ سپریم کورٹ نے سزا معافی پالیسی پراپنے مئی کے مہینے میں دئے گئے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کردیا

,

   

اپنی نظر ثانی کی درخواست میں بانو نے کہاکہ گجرات کی 1992سزا معافی پالیسی کے بجائے مہارشٹرا سزا معافی پالیسی موجودے معاملے میں لاگو ہونا چاہئے‘کیونکہ سنوائی کی شروعات مہارشٹرا میں ہوئی تھی


نئی دہلی۔ مذکورہ سپریم کورٹ نے 13مئی کے فیصلے کو چیالنج کرنے والی بلقیس بانو کی طرف سے دائر کردہ نظرثانی کی درخواست کو خارج کردیا‘ جس میں کہاگیاتھاکہ عصمت ریزی اور متعدد قتل مجرموں کی معافی‘ سزا کے وقت موجود پالیسی جہاں پر جرم کیاگیا ہے گجرات کے مطابق سمجھی جانی چاہئے۔جسٹس اجئے روہتگی او روکرم ناتھ پر مشتمل ایک بنچ نے ایڈوکیٹ شوبھا گپتا کے ذریعہ دائر کردہ بلقیس بانو کی نظر ثانی درخواست کو خارج کردیا ہے۔

اپنی نظر ثانی کی درخواست میں بانو نے کہاکہ گجرات کی 1992سزا معافی پالیسی کے بجائے مہارشٹرا سزا معافی پالیسی موجودے معاملے میں لاگو ہونا چاہئے‘کیونکہ سنوائی کی شروعات مہارشٹرا میں ہوئی تھی۔

عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایک مجرم رادھے شیام بھگوان داس شاہ کی طرف سے دائر درخواست پر آیا جس میں گجرات کو 1992کی پالیسی کے تحت قبل ازوقت رہائی کے لئے ان کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جو اس کی سزا کے وقت موجود تھی۔

بانو نے گجرات فسادات2002میں اپنی اجتماعی عصمت ریزی اور متعدد قتل میں ملوث کے 11مرد مجرمین کی رہائی کے خلاف ایک علیحدہ درخواست دائر کی ہے او رکہاکہ ان مجرمین کی رہائی نہ صرف درخواست گذار کے لئے ایک صدمہ ہے بلکہ ان کی بڑی ہورہی بیٹی اور ان کے گھر والوں کے علاوہ سماج اور قومی سطح اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایک جھٹکے کا احساس ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس بیلا ایم ترویدینے 13ڈسمبرکے روز بانو کی درخواست پر سنوائی کرنے سے انکار کردیاتھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں سنوائی کے لئے اس معاملے کو دوسری بنچ کے پاس رکھا جائے گا۔

بانو نے کہاکہ جب وہ 5ماہ کی حاملہ تھیں ان کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرنے والے درندہ صفت11مجرمین کی رہائی ان کے لئے تکلیف دہ‘ پریشان کن اور قابل مذمت ہے‘ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ظلم وبربریت کی انتہائی کی ہے۔