بنگال کا منی پور سے تقابل

   

کیا صبر ہے، کس طرح کے صابر ہم ہیں
بستی کے مکیں ہیں،نہ مہاجر ہم ہیں
بنگال کا منی پور سے تقابل
بی جے پی قائدین کسی بھی حقیقت سے انکار کردینے میں ہمیشہ سے مہارت رکھتے ہیں۔ ایک سے زائد مواقع ایسے رہے ہیں جب ملک میں درپیش حالات سے بھی حکومت اور اس کے نمائندوں اور بی جے پی قائدین نے انکار کردیا تھا ۔ جس وقت ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر تھی اس وقت بھی مرکزی وزیر اور بی جے پی قائدین کی جانب سے اس سے انکار کیا گیا تھا اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ملک میں مہنگائی نہیںہے ۔ اسی طرح جب منی پور میں صورتحال بگڑتی چلی گئی اور سارے ملک میں تشویش پیدا ہونے لگی تو اس صورتحال کو راجستھان سے بہتر قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت راجستھان میں کانگریس کی حکومت قائم تھی ۔ اب بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ دلیپ گھوش نے بنگال کی صورتحال کو منی پور سے ابتر اور بدتر قرار دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ منی پور میں لا اینڈ آرڈر پوری طرح ناکام ہوچکا ہے ۔ کئی ماہ سے وہاں تشدد اور نسلی تشدد کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ آگ زنی کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ کسی کو بھی جان سے ماردینے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کشیدگی اور تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی تھی کہ منی پور میں خواتین کو برہنہ کرتے ہوئے پریڈ کروائی گئی ۔ اس پر بی جے پی کے کسی ذمہ دار لیڈر یا مرکزی حکومت کے ذمہ داران نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا اور محض خاموشی اختیار کرتے ہوئے منہ موڑ لیا گیا تھا ۔ اب بی جے پی رکن پارلیمنٹ دلیپ گھوش بنگال میں صورتحال کو نشانہ بناتے ہوئے اسے منی پور سے ابتر قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ بنگال میں بھی لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہاں بھی قتل و غارت گری کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ امن متاثر کرنے والے واقعات ہو رہے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذمہ داران پر حملہ کیا گیا ہے ۔ ان واقعات کا بھی کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور یہ بھی قابل مذمت ہیں لیکن اس صورتحال کو منی پور سے ابتر قرار دینا انتہائی بے حسی کی علامت ہے ۔ منی پور ساری ریاست جل رہی تھی اور خواتین کی عزت و عصمت کو تار تار کیا گیا اور ان کا وقار متاثر کیا گیا تھا ۔ اس کی مذمت کی جانی چاہئے تھی لیکن نہیں کی گئی ۔
مغربی بنگال میں ایک دن قبل ہی ای ڈی کی تحقیقاتی ٹیم پر حملہ کا واقعہ پیش آیا ۔ یہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا کوئی جواز نہیںہوسکتا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ تاہم منی پور کی صورتحال سارے ہندوستان کیلئے شرمناک کہی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سے وہاں مرکزی وزیر کے گھر کو نذر آتش کردیا گیا تھا اس کے بعد مرکزی وزیر نے کہا تھا کہ منی پور میں نظم و قانون نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے ۔ چیف منسٹر منی پور کا کہنا تھا کہ جو واقعات منی پور میں ہوئے ہیں وہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہیں ۔ اس طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ واقعات بہت زیادہ ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ ایک ریاست کے چیف منسٹر خود اس طرح کے واقعات کا اعتراف کر رہے ہیں اس کے باوجود وہاں کوئی جامع اور منظم کارروائی نہیں کی گئی اور وہاں کی حکومت کو ایک طرح سے کلین چٹ دیدی گئی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اورا س کے قائدین کے سامنے صرف سیاسی اختلاف ہی مرکز توجہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال کی صورتحال کا منی پور سے تقابل کیا جا رہا ہے اور منی پور میں حالات کو بہتر بنانے پر زور دینے کی بجائے بنگال کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ تشدد اور لا قانونیت نہ بنگال میں قابل قبول ہے اور نہ منی پور میں قابل قبول ہے لیکن سیاسی بنیادوں پر اس میں تفریق کرنا کسی بھی حال میں درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں اکثر و بیشتر سیاسی تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی کسی کو نشانہ بناتا ہے تو کبھی کوئی کسی کے خلاف کارروائی کرتا ہے ۔ یہ طریقہ کار بھی درست نہیں ہے ۔ اس سلسلہ کو بھی روکا جانا چاہئے ۔ اس سلسلہ کو بھی ختم کیا جانا چاہئے تاہم اس کا تقابل کسی اور ریاست سے کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ بنگال میں اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے منی پور میں کچھ نہیں ہونا چاہئے ۔ بی جے پی قائدین کو سیاسی تفریق سے کام لینے کی بجائے سارے ملک کو ایک نظر دیکھنے اور نظم و قانون کے مسئلہ کو محض نظم و قانون کے مسئلہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے ۔