’’بہترین خطاکار توبہ کرنے والے ہیں‘‘

   

محمد مجیب الدین قاسمی

انسان خیروشر سے مرکب ہے، یعنی اس کی خمیر میں نیکی اور بدی دونوں صلاحیتیں یکساں طور پر ودیعت کی گئی ہیں، اگر خیر نے غلبہ پایا تو اس سے اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں اور شرورنفس کو تقویت ملے تو وہ شیطان کے دام فریب میں پھنس کر خدا کی نافرمانی کرگذرتا ہے ، لیکن کامل مؤمن وہی ہے جو اپنے گناہ پر نادم ہوکر فوراً تائب ہوجائے، ایسا بندہ اللہ کو بہت زیادہ محبوب ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سارے کے سارے انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں‘‘ (ترمذی)
توبہ سے متعلق چند ضروری باتیں آپ کے گوش گزار کی جاتی ہیں۔لغت میں توبہ کے معنی رجوع کرنے کے ہیں، اصطلاح میں معصیت سے طاعت کی طرف لوٹنے اور رجوع کرنے کا نام توبہ ہے، توبہ کا فاعل اگر بندہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ بندہ نے معصیت سے اطاعت کی طرف رجوع کیا اور اگر توبہ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی طرف رجوع کیا ۔ (لغات القرآن) علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں کہ توبہ شریعت کی اصطلاح میں گناہ کو اس کے برا ہونے کی وجہ سے ترک کرنا اور اپنی کوتاہی وخطا پر شرمندہ ہونا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے اس کی تلافی کرنا ۔ (مرقاۃ)
توبہ کی دوقسمیں ہیں (۱)توبہ اجمالی (۲)توبہ تفصیلی۔ توبہ اجمالی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی پچھلی زندگی کے تمام گناہوں کو اجمالی طور پر یادکرے اور ان سب سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے، توبہ اجمالی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے صلوۃ التوبہ کی نیت سے دورکعت نماز ادا کرے بعدہٗ ارحم الراحمین کی بارگاہ میں نہایت عاجزی وانکساری، ندامت وشرمندگی اور الحاح وزاری کے ساتھ اپنے ایک ایک گناہ کو یادکرے اور ان سب سے توبہ کرے، توبہ تفصیلی کا حاصل یہ ہے کہ جن گناہوں کی تلافی ممکن ہے ان کی تلافی کرنا شروع کردے مثلاً فرض نمازیں چھوٹ گئیں، جب نمازیں چھوٹنے کا خیال آیا تو فوراً توبہ کرلی لیکن زندگی میں موت سے پہلے ان فائتہ نمازوں کی قضا واجب ہے، اگر صرف گناہوں سے توبہ کرکے بیٹھ گیا اور ان کی تلافی نہیں کی تو توبہ کامل نہ ہوگی، یہی توبہ تفصیلی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا توبہ کی اہمیت اور قبولیت کو بیان فرمایا ہے اور ایمان والوں کو اس کی طرف توجہ دلائی، ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو‘‘ (التحریم: ۸)
حضرت علی کرم وجہہ سے پوچھا گیا کہ توبہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس میں چھ چیزیں جمع ہوں (۱)اپنے گذشتہ برے عمل پر ندامت (۲)جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا (۳)کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تو اس کی واپسی (۴)کسی کو ہاتھ یازبان سے تکلیف پہنچائی تو اس سے معافی (۵)آئندہ اس گناہ کے قریب نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ (۶)جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے اب وہ اس کو اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے ۔ (معارف القرآن) لہٰذا گناہ کے صدور کے بعد فوراً توبہ کرنا ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کا ضامن ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے؛ اگر تم خطائیں کرو اس قدر کہ تمہاری خطائیں زمین وآسمان کے خلا کو بھردیں اور پھر تم اللہ سے بخشش مانگو تو بے شک اللہ تعالیٰ تم کو بخشش دیں گے‘‘ (حصن حصین) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’التائب من الذنب کمن لاذنب لہ‘‘ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو (مشکوٰۃ: ۲۰۶) یہ ہے توبہ کا پھل کہ گناہ اور اس کے اثرات تک ختم ہوجاتے ہیں۔توبہ اور استغفار میں توبہ اصل ہے کیونکہ استغفار توبہ کی طرف جانے والا راستہ ہے ’’اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُـمَّ تُوْبُـوٓا اِلَيْهِ‘‘ (ہود:۳) اس آیت کے ذیل میں علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ استغفار سے مراد ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا اور توبہ سے مراد ندامتِ قلب کے ساتھ تلافی اور آئندہ اس خطا کو دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرنا ہے (روح المعانی) اگر استغفار اور توبہ کی حقیقت ایک ہی ہوتی تو حق تعالیٰ شانہ ان کو الگ الگ بیان نہ فرماتے۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیںیعنی اگر معصیت کا تعلق بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے اور حقوق العباد سے تعلق نہیں تو اس کے لیے تین شرطیں ہیں، ایک یہ کہ گناہ سے فوراً علیحدہ ہوجائے، دوسرے یہ کہ اپنے فعل پرشرمندہ ہو اور تیسرے یہ کہ دوبارہ اس فعل کو نہ کرنے کا عزم کرے (اگر ان تین شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہیں ہوئی) اور اگر گناہ کا تعلق انسان کے حقوق سے ہے تو اس کے لیے چار شرطیں ہیں، تین تو یہی ہیں، چوتھی شرط یہ ہے کہ اس انسان کے حق سے بری الذمہ ہو، ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے توبہ کی جائے تو ضرور قبول ہوگی اور بے شمار فوائد دنیوی وآخروی حاصل ہونگے۔(ریاض الصالحین)
قرآن وحدیث میں توبہ کے بے شمار فائدے بیان کیئے گئے ہیں، توبہ سے جہاں اخروی مصالح حاصل ہوتے ہیں وہیں دنیاوی منافع بھی حصہ میں آتے ہیں چنانچہ توبہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دونوں جہاں کی کامرانی حاصل ہوتی ہے توبہ سے سکون قلب حاصل ہوتا ہے اور بندہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے، ایک بزرگ نے فرمایا کہ ’’توبہ سے تائب کو گناہوں کے بوجھ سے رہائی مل جاتی ہے اور گناہ کے سبب اس پر جو خوف طاری ہوجاتا ہے وہ زائل ہوکر ایک قسم کی ذہنی آزادی حاصل ہوتی ہے‘‘ (گناہوں کا سمندر اور رحمتِ الٰہی کی وسعت)
جو بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اپنی زندگی کو سدھار لے اس کو کبھی حقیر نہ سمجھیں؛ توبہ کے لیے سیدالاستغفار کا اہتمام کریں، نبی کریمﷺ نے حضرت شداد بن اوس سے فرمایا کہ سیدالاستغفار یعنی سب سے عمدہ دعا ہے اور وہ یہ ہے:’’اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوءُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ‘‘ (بخاری بحوالہ مشکوۃ)خلاصہ یہ کہ انسان کی عمر کا کوئی بھروسہ نہیں، رحمتِ خداوندی کی کوئی حد نہیں، اپنی سابقہ غفلت کو دور کریں خلوص دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں اور گناہوں سے توبہ کریں کیونکہ خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی ہے وہ بندہ کی توبہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب قرار دیا ہے ’’ان اللّٰہ یحب التوابین‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲) نیز اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے ’’التائب حبیب اللّٰہ‘‘۔
توبہ کی برکت سے رزق میں برکت ووسعت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں کہ ’’جس نے کثرت سے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اس کو ہرغم سے نجات دیں گے، ہرمشکل آسان اور اس سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمائیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا‘‘ (ابوداؤد)۔ توبہ کا لازوال فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی برکت سے اعمال صالحہ کی توفیق ہوتی ہے، اعمال میں برکت حاصل ہوتی ہے اللہ کو راضی کرنے کا جذبہ، صبروشکر، رضا بالقضا اور توکل جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں، توبہ کی برکت سے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ توبہ میں تاخیر کرنا سخت خسارہ اور نقصان دہ ہے کیونکہ گناہ سے اولاً قلبی قساوت پیدا ہوتی ہے جس سے فکرآخرت سے غفلت بڑھتی جاتی ہے اور آدمی گناہوں کے دلدل میں پھنس کر کفروگمراہی کی حد تک جاپہنچتا ہے مگر احساس نہیں ہوتا، اکثر لوگ تقدیر کا بہانہ بناکر کہتے ہیں کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور ہوکر رہے گا پھر نہ طاعت سے کوئی فائدہ نہ گناہ سے کچھ ضرر، مگر درحقیقت یہ شیطان اور نفس کا دھوکہ ہے، علم کلام کو مسلمہ اصول ہے کہ ’’خلق قبیح قبیح نہیں، کسب قبیح قبیح ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے بطورِ آزمائش جن اعمال بد کو وجود بخشا ہے اس کا یہ عمل غلط نہیں ہے مگر انسان کا نفس وشیطان کے بھکاوے میں آکر ان اعمال بد کو اختیار کرنا برا ہے۔
گناہ خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ناامیدی کی وجہ سے ترک توبہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ پرعزم ہوکر توبہ کریں تو ضرور قبول ہوتی ہے، کبھی کبھی نفسانی خواہشات اور اس کی لذت میں پڑ کر آدمی توبہ نہیں کرپاتا، ایسے وقت میں اللہ کے عذاب کا تصور کریں کہ یہ مزہ تو فانی ہے مگر عذاب خداوندی باقی اور ابدی ہے اور اللہ کی محبت وحکم کو غالب کر کے نفس کی حرام چاہت کو پورا نہ کریں، یہ طریقہ ترک گناہ اور سبقت توبہ کا بہترین نسخہ ہے، صرف خدا کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور اسی کے آگے اپنی عاجزی، بے کسی اور خطاکاری ظاہر کریں؛ کیونکہ خداکے درکے سوا کوئی اور دروازہ نہیں جہاں بندہ کو معافی مل سکے، رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے ’’لوگو! خدا سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، مجھے دیکھو میں دن میں سوسوبار خدا سے مغفرت کی دعا کرتا رہتا ہوں‘‘ (مسلم: ۲۷۰۲) توبہ کرنے میں عجلت سے کام لیں اس لیے کہ زندگی کا حال کسی کو معلوم نہیں کہ کب مہلت عمل ختم ہوجائے، توبہ واستغفار کے ذریعے قلب وروح اور ذہن وزبان کو گناہوں سے پاک کرتے رہیں، نہایت سچے دل اور خلوص کے ساتھ توبہ کریں، اپنی توبہ پر قائم رہنے کا پختہ عزم کریں، شب وروز دھیان رکھیں کہ خدا سے کیئے ہوئے عہدوپیمان کے خلاف کوئی حرکت نہ ہونے پائے اور اپنی روز افزوں اپنی اصلاح حال سے اپنے عزم کا اندازہ کرتے رہیں۔
جو بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اپنی زندگی کو سدھار لے اس کو کبھی حقیر نہ سمجھیں؛ کیونکہ اس کی سچی توبہ اللہ کے نزدیک ہمارے اعمال سے زیادہ مقول ہو، توبہ کے لیے سیدالاستغفار کا اہتمام کریں، نبی کریمﷺ نے حضرت شداد بن اوس سے فرمایا کہ سیدالاستغفار یعنی سب سے عمدہ دعا ہے اور وہ یہ ہے:’’اللّٰھم انت ربی لاإلہ إلا انت حلقتنی انا عبدک وانا علی عھدک ووعدک مااستطعت اعوذبک من شرماصنعت أبوٓء لک بنعمتک علی ابوٓء بذنبی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت‘‘ (بخاری بحوالہ مشکوۃ)
خلاصہ یہ کہ انسان کی عمر کا کوئی بھروسہ نہیں، رحمتِ خداوندی کی کوئی حد نہیں، اپنی سابقہ غفلت کو دور کریں خلوص دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں اور گناہوں سے توبہ کریں کیونکہ خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی ہے وہ بندہ کی توبہ ہے۔