بیٹیوں نے اس شخص کو نئی زندگی دی

,

   

نئی دہلی۔ جب ال نقیب‘ ایک یمنی شہری جگر کے مرض کے سبب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے‘ ڈاکٹرس نے انہیں جگر کی پیوندکاری کے متعلق کہا‘ ان کے تمام تینوں بچوں نے اپنے والد کی جان بچانے کے لئے اپنے اعضاء کے کچھ حصہ کی پیشکش کی۔

چونکا کے نقیب کا بیٹا کافی موٹا تھا اس کے اس کو اہم عطیہ دینے والے کے طور پر تسلیم نہیں کیاگیا۔لہذا گھر والوں میں سے کسی ایک کی درخواست پر اپولو اسپتال کے ڈاکٹرس نے نقیب کی بیٹیوں بہاجا او رسارہ کی جانچ شروع کردی تاکہ اعضاء کا عطیہ لیاجاسکے۔

جگر کی پیوندکاری کے معاملے میں زندہ عطیہ دہندگان‘ کے ایک مرض کا شکار جگر سے صحت مند جگر دوسرے فرد سے تبدیل کیاجاتا ہے۔

ایسا معاملات میں صحت مند زندہ عطیہ دینے والے جگر کے سیدھے طرف سے 55%سے 70%حصہ نکالا جاتا ہے۔ اگلے چھ ہفتوں میں عطیہ دینے والے کا جگر پھر 100فیصد کام کرنے لگتا ہے۔

تاہم اس معاملے میں دوبیٹیاں جس کی عمر20سال کی ہوگی‘ کے پاس درکار حصہ سے کم جگر دستیاب تھا۔ ڈاکٹروں کسی بھی لڑکی کے ساتھ جگر کی پیوندکار ی کا کام انجام نہیں دے سکے۔

جبکہ کوئی دوسرے عطیہ دینے والا نہیں تھا‘ مذکورہ بیٹیوں نے دونوں کے جگر سے تھوڑا حصہ لینے او رساتھ میں پیوندکاری کا کام انجام دینے کا زوردیا۔ اسپتال میں جگر کی پیوندکار ی کرنے والے سینئر ڈاکٹر گوئیل نے کہاکہ ”دوہرا انداز میں جگر کی پیوندکاری ممکن ہے‘ مگر یہ کافی پیچیدگی بھی ہوتی ہے۔

کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا موقع نہیں تھا‘ جس کے ذریعہ ہم مریض کی جان بچاسکیں‘ نے اس پر کوشش کی او رکامیابی ملی“۔

انہو ں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ بہاجاکے جگر کی سیدھی جانب سے 400گرام پر مشتمل حصہ اور سارے کے جگر کے دائیں جانب سے240گرام پر مشتمل حصہ اور دونوں کو ایک جگہ کیا۔ڈاکٹر گوئیل نے کہاکہ ”ہماری ٹیم پر کافی دباؤ تھا کیونکہ دو ڈونرس اس کام میں ملوث ہیں۔

کئی مسائل کی وجہہ سے مریض کے لئے پیوندکاری کافی مشکل تھی۔ مگر ہمیں مریض کو نئی زندگی میں کامیابی حاصل ہوئی“

۔مذکورہ پیوندکاری مئی23کے روز ہوئی اور ڈاکٹر س کا کہنا ہے کہ نقیب صحت مند ہیں او راسپتال سے اب ڈسچارج ہوئے ہیں۔انہو ں نے کہاکہ ”بہاجا اورسارہ بھی تیزی کے ساتھ روبصحت ہورہے ہیں“