بی جے پی اور ذات پات کی مردم شماری

   

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ذات پات کی مردم شماری بی جے پی کیلئے ایک مشکل مسئلہ بن گئی ہے ۔ بی جے پی کھل کر اس کی تائید بھی نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی وہ کھلے عام اس کی مخالفت کرسکتی ہے ۔ وہ درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے اور اس کوشش میں وہ اور بھی بے نقاب ہو رہی ہے ۔ کانگریس اور دوسری جماعتوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ذات پات پر مبنی مردم شماری کی وکالت کر رہی ہیں۔ اس معاملے کو پہلے تو ہندووں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا گیا تھا ۔ ہندو کارڈ کھیلتے ہوئے بی جے پی کو شائد امید تھی کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرلے گی اور کوئی راستہ تلاش کرلیا جائیگا تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ جب اسے ہندووں میںپھوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا گیا تو عوام میں وہ رد عمل سامنے نہیںآیا جس کی بی جے پی توقع کر رہی تھی ۔ پسماندہ اور پچھڑے طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام میں بتدریج شعور بیدار ہونے لگا ہے اور وہ اپنے لئے حق مانگنے لگے ہیں۔ جس طرح سے تحفظات کا نظام اس ملک میں کام کر رہا ہے وہ شائد حکمرانوں کیلئے باعث اطمینان ہو لیکن عوام اس سے پوری طرح مطمئن نظر نہیں آتے ۔ ایسے میں جب ذات پات کی مردم شماری کے ذریعہ حقیقی اعداد و شمار کو منظر عام پر لایا جائیگا تو اس سے سماج میں حصہ داری کی وکالت میں اضافہ ہوگا ۔ لوگ آبادی میں اپنے تناسب کے اعتبار سے حصہ داری کا مطالبہ کریں گے اور ایسا ہونے بھی لگا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس معاملے پر کوئی واضح اور صاف موقف اختیار کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ گذشتہ کئی برسوں سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبات ہو رہے ہیں ۔ مرکز میں گذشتہ دس برس سے بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں وہ ایک سے زائد معیادوں سے حکومت کر رہی ہے لیکن اس جانب کوئی پیشرفت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی مردم شماری کے حق میں کوئی فیصلہ کیا گیا ہے ۔ بہار میں نتیش کمار کے ساتھ حکومت میں حصہ داری کے دوران ریاستی یونٹ کی جانب سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے کی بحالت مجبوری تائید کی گئی تھی اور اس کے نتائج سے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔
بی جے پی نے بہار میں جو مردم شماری ہوئی ہے اس پر ہی سوال اٹھائے ہیں۔ خود ملک کے وزیر داخلہ بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ بہار میں ہوئی مردم شماری میں یادو اور مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ جس طرح سے اس سروے رپورٹس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اس سے بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہی کا پتہ چلتا ہے ۔ بی جے پی ایک حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے کی رپورٹ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ کانگریس پارٹی نے اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے اور اسی لئے پارٹی کے قائدین خاص طور پر راہول گاندھی بارہا یہ اعلان کر رہے ہیں کہ پانچ ریاستوں میں جاری انتخابات میں جہاں کہیں بھی کانگریس کی حکومت بنے گی وہاں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی جائے گی ۔ کرناٹک میں کانگریس حکومت نے بھی اس طرح کی مردم شماری کا اعلان کردیا ہے ۔ راہول گاندھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اگر مرکز میں حکومت کانگریس یا حلیف جماعتوں کی بنتی ہے تو قومی سطح پر بھی یہ مردم شماری کروائی جائے گی ۔ بی جے پی اس کی تائید کرنے سے خائف نظر آتی ہے ۔ تاہم اس کی اہمیت اور عوام میں اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے اب وزیر داخلہ نے یہ کہا ہے کہ بی جے پی ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالف نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو بی جے پی کو بھی اعلان کرنا چاہئے کہ وہ بھی قومی سطح پر اس طرح کی مردم شماری کروائے گی ۔ اس کے علاوہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں بھی ایسے سروے کا آغاز کیا جانا چاہئے تاہم آثار و قرائن اس طرح کے کسی اعلان کے امکانات ظاہر نہیں کرتے ۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے ۔
ہندوستان میں پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقات کی کثیر آبادی ہے ۔ یہ لوگ اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور مردم شماری کے ذریعہ ان کے تناسب کا پتہ چل سکتا ہے ۔ نہ صرف پچھڑے اور پسماندہ طبقات کی بلکہ دوسرے تمام طبقات کی آبادی کا پتہ چل سکتا ہے ۔ اس کے نتائج سے سماجی بہتری اور فلاحی اسکیمات میں ان کی حصہ داری کا تعین ہوسکتا ہے اور ملک کی ہمہ جہتی اور تمام طبقات کی مساوی ترقی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے یہ مسئلہ مشکل ہوتا نظر آرہا ہے اور پارٹی درمیانی راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہے ۔