… تا کہ دور فرما دے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے ۔(سورۃ الفتح ۲) 

   

گزشتہ سے پیوستہ … اس شبہ کو دور کرنے کےلئے علمائے تفسیر نے متعدد جواب دیئے ہیں جن کا خلاصہ پیش خدمت ہے: ۱۔ یہاں گناہ سے مراد گناہ صغیرہ ہے۔۲۔ یہاں گناہ سے مراد خلاف اولیٰ ہے اور حسنات الابرار سیئات المقربین کے قاعدے کے مطابق خلاف اولیٰ کو گناہ کہا گیا ہے۔۳۔ وہ فعل اگرچہ نہ گناہ صغیرہ ہے نہ خلاف اولیٰ ، لیکن حضور کی نگاہ عالی میں وہ نہیں جچتا اس لیے حضور (ﷺ) کے مقام رفیع کے باعث اسے ذنب (گناہ) کہہ دیا گیا ہے۔۴۔ بعض علما نے غفر کا معنی بچا لینا اور محفوظ کر لینا کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ اور معصوم رکھا ہے۔ اس حفاظت زبانی کے باعث نہ پہلے آپ سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا اور نہ آئندہ کبھی کوئی گناہ سرزد ہوگا۔۵۔ بعض علما نے یہ تو جیہہ کی ہے کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ مغفرت عامہ کی بشارت دے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک کو مطمئن کر دیا جائے۔ یعنی پہلے تو آپؐ سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوئی، بالفرض اگر کوئی سہوا سرزد ہوگئی ہوتو بھی اس سے عفوو درگزر کا مژدہ سنایا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی خلش یا مواخذے کا اندیشہ نہ رہے۔یہ سارے جوابات اپنی اپنی جگہ نہایت اہم ہیں، لیکن کلام کے سیاق و سباق کو پیش نظر رکھا جائے، تو ان میں سے کوئی مفہوم یہاں چسپاں نہیں ہوتا۔ فتح مبین کی غرض و غایت یا اس کا نتیجہ اور انجام مغفرت بتایا گیا ہے، لیکن فتح اور مغفرت میں کوئی مناسبت نہیں۔ اس لیے اس آیت میں مزید غور و خوض کی ضرورت ہے تاکہ آیات کا باہمی ربط بھی واضح ہو جائے اور عصمت نبوت پر بھی کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہ ملے۔ ذنب کے لفظ پر غور کیا جائے تو یہ مشکل آسان ہو جائیگی۔