تبریز انصاری کی موت کا ذمہ دار کون ؟

   

جس طرح ملک کے مختلف مقامات پر ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے اسی طرح ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے تشددکے ذمہ داران کو قانون کے شکنجے سے بچانے کی مہم میں بھی تیزی آگئی ہے ۔ پہلے راجستھان کے الور میں پہلو خان قتل کیس کے ملزمین کو استغاثہ کی لاپرواہی بلکہ جانبداری اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں عدالت سے برات حاصل ہوگئی اسی طرح اب جھارکھنڈ پولیس نے کارنامہ انجام دیا ہے اور تبریز انصاری ہجومی تشدد کے معاملہ میں گیارہ ملزمین کے خلاف قتل کے الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے ۔ تبریز انصاری کو 17 جون کو ایک جنونی ہجوم نے رات بھر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا ۔ رات بھر تبریز کو پیٹ پیٹ کر ادھ موا کردیا گیا تھا اس کے بعدپولیس کو مطلع کیا گیا اور پولیس نے بھی اسے فوری دواخانہ منتقل کرنے کی بجائے اپنی کارروائی پوری کرنے کی کوشش کی اور کافی تاخیر کے بعد اسے دواخانہ منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج فوت ہوگیا ۔ اب پولیس نے گیارہ ملزمین کے خلاف قتل کے الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ جو پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی ہے اس کی بنیاد پر ایسا کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبریز انصاری کی موت قلب پر حملہ اور بہت زیادہ تناو کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ پولیس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تناو کیوں تھا اور اس کے قلب پر حملہ بھی ہجومیوں کی مارپیٹ کے خوف سے ہوا ہے اور اس کیلئے یہی ملزمین ذمہ دار ہیں۔ انہیں راست یا بالواسطہ طور پر قتل کا ذمہ دار ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ پولیس کو یہ بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ یہ قتل ہے یا کچھ اور ۔ پولیس اپنی دستاویزی کارروائی پوری کرتے ہوئے عدالت سے رجوع ہوسکتی ہے اور عدالت میں یہ طئے ہوگا کہ ملزمین قتل کے ذمہ دار ہیں یا نہیں یا پھر اس کی موت کس وجہ سے ہوئی ہے ۔ پولیس ہی اگر اپنے طور پر اس طرح کے فیصلے کرنے لگے تو پھر عدالتی عمل متاثر ہوگا بلکہ عدالتی عمل میںایک طرح سے مداخلت ہوگی جس کا کسی کو اختیار نہیں ہے ۔ ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں وہ عدالتوں کی جانب سے ہی کئے جاتے ہیں۔

ایک ویڈیو جو وائرل ہوا تھا وہ سارے ملک نے دیکھا کہ کس طرح سے تبریز انصاری کو جنونی فرقہ پرست ایک پول سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹ رہے ہیں۔ اس کے چہرے پر خوف دیکھا جاسکتا تھا ۔ اس خوف کی وجہ سے ہی اس کے قلب پر حملہ ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ تناؤ کا بھی شکار ہوگیا تھا ۔ پولیس نے اب جس پوسٹ مارٹم رپورٹ کو قتل کے الزامات سے دستبرداری کی وجہ بنایا ہے اس کی بنیاد پر بھی ملزمین کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر ہوسکتا ہے اور اس مقدمہ کی واجبیت کا فیصلہ عدالت میں ہوسکتا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ پولیس ہی اپنے طور پر فیصلے کرنے لگی ہے اور ایسا کرنا انصاف رسانی کے عمل میں مداخلت ہے اور اس سے متاثرین کو انصاف نہیںملے گا اور اس سے حملہ آوروں اور قاتلوں کے حوصلے بلند ہونگے ۔ وہ جرائم سے بچنے کی بجائے ان کا ارتکاب مزید دیدہ دلیری سے کرنے لگیں گے ۔ پہلے ہی سارے ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات بہت زیادہ پیش آنے لگے ہیں اور جنونی اور فرقہ پرست ہجوم بے قصور اور معصوم افراد کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارنے لگے ہیں۔ سارے ملک کے عوام اس طرح کے واقعات پر فکرمند اور بے چین ہیں۔ پولیس سے یہ امید رہتی ہے کہ پولیس اس طرح کے غیر انسانی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف غیر جانبداری سے اور قانون کے مطابق کارروائی کریگی تاہم پولیس نے ایسا نہیں کیا ہے اور اس کی تحقیقات پر بھی اب تو سوال پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔

اگر جو ملزمین اس واقعہ میں گرفتار کئے گئے ہیں وہ تبریز کی موت کے ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟ ۔ کیا تبریز امراض قلب کا مریض تھا ؟ ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ۔ وہ ایک صحتمند اور کم عمر نوجوان تھا ۔ اسے کوئی تناؤ کا ڈپریشن بھی نہیں تھا تاہم جنونیوں کے حملے اور مسلسل مار پیٹ کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا تھا اور اسی خوف کے عالم میں ہوسکتا ہے کہ اس کے قلب پر حملہ بھی ہوا ہو اور تناو بھی بہت زیادہ ہوگیا ہو اور وہ ڈپریشن کی وجہ سے موت کا شکار ہوگیا ہو ۔ تاہم اس سارے عمل کیلئے بھی وہی جنونی فرقہ پرست ذمہ دار ہیں جنہوں نے تبریز پر حملہ کیا تھا اور اسے بے رحمانہ انداز میں مار پیٹ کی تھی ۔ پولیس کو اپنے طور پر فیصلے کرنے کی بجائے ثبوت و شواہد مجتمع کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف مقدمہ کو مضبوط بنانے اور عدالتوں سے ایسے ملزمین کو سزائیں دلانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔