تدبر قرآن افادیت و ضرورت

   

قرآن کریم نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا سب سے عظیم لافانی اور ابدی معجزہ ہے ، جو اپنے الفاظ و کلمات ، اپنے جملوں اور اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے بے مثال اور اپنے مضامین و افکار کی بناء پر بھی دنیا کا سب سے زیادہ محیرالعقول معجزہ اور رہتی دنیا تک انسانوں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے ۔
قرآن مجید کانزول عام انسانی کتابوں سے مختلف انداز میں ہوا ہے ، باقی آسمانی کتابوں کے برعکس اس کتاب مبین کے الفاظ بھی آسمان سے نازل ہوئے ہیں ، جبکہ باقی آسمانی کتابوں کے صرف معانی اُترے تھے ، الفاظ و کلمات کا انتخاب انبیاء علیھم السلام خود کرتے تھے ۔
قرآن مجید کے نزول سے قبل اشعار کے قصیدے ، قصہ ، کہانی اور ادبی جملوں کو یاد کرنے کی مثالیں تو موجود تھیں لیکن دنیا کی اتنی بڑی کتاب کو حفظ کرنے کی کوئی مثال قائم نہ تھی اور نہ بعد میں قرآن جیسی کسی اور مذہبی یا غیرمذہبی کتاب کو حفظ کرنے کی مثال پائی جاتی ہے ۔ قرآن مجید کے حفظ کا تصور بالکل نادر اور نیا ہے ۔ اس عظیم الشان نعمت کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یعنی ’’بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں جن کو علم دیا گیا ان کے سینوں میں ( محفوظ ) ہیں‘‘ (۲۹؍ العنکبوت ۴۹)
قرآن مجید نے اپنے متعلق یہ پیشن گوئی فرمائی کہ اسے حفظ کیا جاسکے گا اور یہ بھی بتادیا گیا کہ اس کا حفظ نہایت آسان کردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس اُمت کے غیرعربی داں معصوم بچے بھی اس کو بہ آسانی اپنے سینوں میں محفوظ کرلیتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : یعنی ہم نے قرآن کو یاد کرنے کیلئے آسان کردیا پس کوئی ہے جو اسے سوچے ، سمجھے یا یاد کرے۔ (سورۃ القمر ۵۴؍۱۷)
چنانچہ قرآن مجید کو حفظ کرنے سے لیکر ، اس کے معانی و مطالب کے فہم و ادراک تک سبھی مرحلے انتہائی آسان بنادیئے گئے ہیں۔ بعض مستشرقین نے قرآن مجید کو منتشر مضامین و موضوعات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کا ایک اپنا مخصوص انداز و بیان ہے ، جسے سمجھنے کیلئے اس کا گہرا مطالعہ ضروری ہے اور قرآن حکیم کا یہی اسلوب اور یہی منھج اس کا عظیم الشان معجزہ ہے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ قرآنی علوم و معارف پانچ انواع پر منقسم ہیں (۱) علم الاحکام ( زندگی کے متعلقہ مسائل کے احکام ) ، (۲) علم المخاصمہ ( علم تقابل ادیان) ، (۳) علم بایام اللہ ( یعنی مختلف قوموں پر آنے والے عذابوں کے تذکرہ سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا ، (۴) التذکیربآلا ء اﷲ ( یعنی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرکے ان کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کرنا ، (۵) علم التذکیر بالموت و مابعدہٗ ( موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کے تذکرے سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا ۔(الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ص ۱ تا ۲ )
قرآن مجید اس بات کی رعایت نہیں کرتا کہ اس سورہ میں یا اس حصے میں صرف فلاں قسم کے مضامین مذکور ہوں گے اور دوسری نوع کے مضامین دوسری سورت میں آئیں گے اس کے برعکس ایک ہی سورہ میں یکے بعد دیگرے کئی قسم کے مضامین مذکور ہوتے ہیں ۔ مضامین کے اس تنوع کے باوجود نہ تو مضمون کے تسلسل اور اس کی روانی میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ ہی قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب پرانے موضوع کی جگہ نیا موضوع شروع ہورہا ہے ، حالانکہ اگر کسی دوسری کتاب میں یہ انداز بیان اختیار کیا جائے تو یقینا قاری پر گراں گزریگا ۔ موضوع اور مضمون کے تنوع کے ساتھ ساتھ الفاظ و انداز بیان بھی بدلتے رہتے ہیں ، ابھی صیغہ غائب ہے تو ابھی حاضر ہے اور ابھی متکلم ، جس سے معانی قرآن کی لذت دوبالا ہوتی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہر آیت ، بلکہ ہر سطر میں ایسے ظاہری اور معنوی محاسن پوشیدہ ہیں جنھیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے مگر بیان نہیں کیا جاسکتا، اسکی حلاوت ، شعوری اور ادراکی بھی ہے اور وجدانی بھی ۔
( سیرت خیرالانام ص : ۴۶۸۔۴۶۹)
ان سب خصوصیات کے جمع ہونے سے قرآن مجید ایک ایسے کلام کے طورپر دنیا میں موجود ہے جس کا کوئی ثانی اور مثیل نہیں ہے اور بار بار اعلانات کے باوجود دنیائے کفر و عناد اس کی کوئی نظیر اور مثال پیش نہیں کرسکی ۔ کسی کتاب کو جانچنے اور اس کے معیار کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے اور سننے سے دل پر کس قسم کا اثر ہوتا ہے ۔ قرآن مجید خود اپنی نسبت خبر دیتے ہوئے بیان کرتا ہے ترجمہ : اﷲ نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی) کتاب جس کی آیتیں ( باہم ) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جولوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، ان کے بدن کے ( اس سے ) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہوکر) خدا کی ذات کی طرف ( متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ ( سورۃ الزمر:۲۳)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : یعنی ’’مومن تو وہ ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈرجاتے ہیں اور جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے ‘‘ ۔
(۸(الانفال)۲۱)
اس لحاظ سے قرآن مجید واحد آسمانی کتاب ہے جس نے تاریخ انسانیت پر گہرے ، انمٹ اور لازوال اثرات چھوڑے ہیں ۔ قرآن حکیم کے ذریعہ نہ صرف اشاعت اسلام ہوئی بلکہ اس نے اسلام قبول کرنے والوں میں اخلاقی و معاشرتی ، سماجی اور مذہبی اقدار کو استوار رکھا ، آزادی و غلامی ، ترقی و تنزل ، الغرض مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں ان کے ذہنی جذبے کو نہ صرف بلند رکھا بلکہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا جو قرآن حکیم کا ایک نمایاں اعجاز ہے ۔
آج قرآن مجید سے وابستگی میں کمی کی وجہ سے مسلمان قوم کی علمی اور فکری حیثیت روز بہ روز گرتی جارہی ہے ۔ لوگ قرآن مجید کی تلاوت اور سماعت کی طرف توجہہ کرتے ہیں جو بلاشبہ تمام ادیان و مذاہب کے بالمقابل اہل اسلام کی اپنے دین و مذہب سے وابستگی کی اعلیٰ مثال ہے ۔ لیکن تلاوت و سماعت کے ساتھ تدبر قرآن اور فہم قرآن کی ضرورت ہے نیز اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔