تشدد کے ملزمین یا ہیرو

   

تشدد کے ملزمین یا ہیرو
سماج میں گذشتہ چند برسوں میں ایک نئے رجحان نے فروغ پایا ہے ۔ یہ رجحان فرقہ پرستی کے مقدمات یا ہجومی تشدد یا پھر مسلمانوں کو نشانہ بناکر مقدمات کا سامنا کرنے اورجیل سے رہا ہونے والوں کے ہیرو جیسے استقبال اور ان کی رہائی کو کسی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی روایت سی چل پڑی ہے ۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب کئی معاملات میں ہجومی تشدد کے ملزمین عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان کی چاندی ہوگئی ۔ انہیں سماج میں ایک طرح کی عزت ملنے شروع ہوگئی ۔ کئی بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء تک نے ان ملزمین کے گھروں تک جا کر ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ ان کی گلپوشیاں کی گئیں۔ ان کی ستائش کی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ہندوستان میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔ ماضی میںایسی کئی مثالیں موجود رہی ہیں جب کوئی ملزم اگر عدالتوں سے ضمانت حاصل کر کے رہا بھی ہوتا تو کئی مہینوں اور ہفتوں تک منہ چھپاتے پھرتے ۔ وہ سماج کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ۔ سماج میں انہیں حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ۔ انہیں قریب کرنے سے لوگ گریز کرتے تھے ۔ تاہم آج صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے اور تشدد کے مقدمات میں ضمانتیں حاصل کرنے والوں کی سماج میں عزت افزائی کی جا رہی ہے اور یہ عمل ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسے واقعات میںکمی آنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور یکے بعد دیگرے ایسے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ کئی موقعوں پر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے اور ان کو کیفر کردار تک پہونچانا چاہئے تاہم یہ بھی ضرو ری ہے کہ تشدد میں ملوث ملزمین کی بھی حوصلہ افزائی نہ کی جائے ۔ ایسا کرنے والوں کو سماج میں اگر قبول نہ کیا جائے اور انہیں ان کی اوقات دکھائی جائے تو شائد مظالم ڈھانے اور جرائم کا ارتکاب کرنے میں کوئی کمی آئے اور سماج میں سکون و چین کی فضاء پیدا ہوپائے ۔
ملزمین چاہے کسی بھی جرم کے ہوں ملزم ہی ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی اور مدح سرائی نہیںہونی چاہئے ۔ علاوہ ازیں ملزمین کے تعلق سے امتیاز بھی نہیں برتا جانا چاہئے ۔ ایسے عناصر سے فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے انہیں اپنے کئے پر شرمندہ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا آج کے دور میں ملزمین کی حوصلہ شکنی نہیں ہوسکتی ۔ اب تو جو فضاء پیدا ہوگئی ہے اس میں ملزمین کی حوصلہ شکنی کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ان کا جیل سے رہائی پر ایسے استقبال کیا جا رہا ہے جیسے انہوں نے ماونٹ ایورسٹ سر کرلی ہو۔ ان کی گلپوشی ہو رہی ہے اور انہیںہیرو کے طور پر پیش کیا جار ہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ متوفی اور متاثرین سے اظہار ہمدردی ہونے اور ان کی مدد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کئے جانے کی بجائے ملزمین کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ جو روایت فروغ پا رہی ہے اس سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں آئے گی بلکہ جرائم کا تناسب بڑھے گا ۔ سماج میں نراج کی کیفیت پیدا ہوگی ۔ متاثرین بے یار و مدد گار محسوس کرینگے جبکہ ملزمین سماج میں ملنے والی عزت و واہ واہی کی وجہ سے مزید نئے منصوبے بناتے ہوئے ان پر عمل آوری کرسکتے ہیں۔ یہ ہندوستانی سماج اور ہماری قدیم روایات کے یکسر مغائر روایت ہے جو فروغ پا رہی ہے ۔
ہفتہ کو بلند شہر تشدد کے ملزمین کی ضمانت پر رہائی عمل میں آئی ۔ اس تشدد میں ایک پولیس انسپکٹر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ ملزمین میںدو کی اس طرح سے حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس طرح انہوں نے ملک کیلئے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک قانون کے رکھوالے کا قتل ہوگیا اور قتل کے ملزم کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یو پی کی حکومت کا کہنا ہے کہ ملزمین کی اس طرح سے حوصلہ افزائی یا ہمت افزائی میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ جب حکومتوں کی ذہنیت ہی اس طرح کی ہوجائے تو پھر ملزمین کے حوصلے بلند ہی ہونگے ۔ سماج کو ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومتیں بھی اپنی ذہنیت کو تبدیل کریں اور ملزمین کو اپنے کئے پر شرمندگی محسوس ہو۔