تلنگانہ بی جے پی اور مشکلات

   

میں تیرے دام میں آنے کی نہیں ائے صیاد
مہکی گلشن میں ہوں میں، رات کی رانی کی طرح
تلنگانہ میں حصول اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی اب ریاست میں پوری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بکھرنے لگی ہے ۔ پارٹی کیڈر اور قائدین میں جو ش و خروش کا فقدان پہلے ہی سے پارٹی کیلئے مسائل پیدا کرنے لگا تھا اور اب کئی قائدین کے یکے بعد دیگرے پارٹی سے انحراف اور کانگریس میںشمولیت نے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ پارٹی اقتدار کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے اور اس کی دعویداری بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ بی جے پی کے قائدین کو خود یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وہ اقتدار کی دوڑ کا حصہ تک بھی نہیں بن پا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے اب متبادل حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ ریاست میں معلق اسمبلی تشکیل پائے اور پھر اسے حکومت سازی میں حصہ داری حاصل کرنے کاموقع مل سکے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے بل پر اقتدار حاصل نہ کرنے پائے اور برسر اقتدار بی آر ایس کو بھی کم از کم دس نشستوں کی کمی رہ جائے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی اپنے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے اور اس کی کوشش بھی یہی ہے کہ وہ 10 یا اس سے زیادہ نشستوںپر کامیاب ہوجائے ۔ اسی مقصد کے تحت پارٹی نے تلنگانہ سے اپنے چاروں ارکان پارلیمنٹ کو اسمبلی کیلئے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ کسی بھی طرح دس سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے بی آر ایس کے ساتھ اقتدار بانٹنا چاہتی ہے اور اسے یہ پتہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر ریاست میں بی آر ایس اور بی جے پی کی حکومت بن سکتی ہے کیونکہ کانگریس کسی بھی قیمت پر بی جے پی کے ساتھ نہیں جاسکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے جو نظریاتی اختلافات ہیں اور ہندوستان پر اقتدار کی جو جنگ ہے اس میں کانگریس اور بی جے پی کبھی ایک نہیں ہوسکتے ۔ بی جے پی یہ یقین رکھتی ہے کہ اقتدار کی خاطر بی آرا یس بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی اپنے لئے اقتدار میں حصہ داری کی منصوبہ بندی کے ساتھ انتخابی میدان میں سرگرم ہو رہی ہے ۔ تاہم اس کے قائدین کے انحراف اور پارٹی چھوڑ کر کانگریس میںشمولیت اختیار کرنے کی وجہ سے اس کے منصوبوں کا پورا ہونا مشکل ہی ہوتا جا رہا ہے۔
بی جے پی کی ملک کی کئی ریاستوں میںیہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ پہلے جونئیر پارٹنر بنتے ہوئے حکومت یا اقتدار میں حصہ داری حاصل کرلیتی ہے اور کچھ عرصہ میں اپنے پیر پھیلاتے ہوئے اپنی ہی حلیف جماعت کو بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیںکرتی ۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیںجہاں بی جے پی نے اپنی حلیف جماعتوںکو بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ بہار میں نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ اسی لئے اپنی مفاہمت ختم کردی کیونکہ بی جے پی حکومت میں حصہ دار رہتے ہوئے بھی نتیش کمار کے پاوں کے نیچے سے زمین کھینچنا چاہتی تھی ۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں بی جے پی نے شیوسینا سے اتحاد کیا اور اسے پیچھے ڈھکیلتے ہوئے خود اقتدار حاصل کرلیا ۔ شیوسینا میں پھوٹ کے ذریعہ بھی اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اس کے علاوہ کئی دوسری علاقائی جماعتیں بھی ہیں جنہیں بی جے پی نے پہلے اتحاد کرتے ہوئے ساتھ لیا اور اپنے قدم جمانے کے بعد ان حلیف جماعتوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل شروع کردیا ۔ تلگودیشم کی بھی مثال موجودہے جہاں ابتداء میں بی جے پی نے تلگودیشم کے ساتھ اتحاد کیا تھا لیکن بعد میںتلگودیشم کے صفائے کی کوششوںمیں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ بی جے پی کے عزائم ہی کو دیکھتے ہوئے پنجاب میںشرومنی اکالی دل نے بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم کردیا تھا ۔ بی جے پی ارکان اسمبلی کی تعداد کم رکھتے ہوئے بھی چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور چھوٹی و علاقائی جماعتوں پر دباو بناتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرتی ہے ۔ تلنگانہ کے تعلق سے بھی بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اسی طرح کی حکمت عملی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھا جانا چاہئے ۔
ریاست میں رائے دہندوں کو اپنے سیاسی شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے یا اقتدار میں حصہ داری حاصل کرنے سے روکنے کیلئے ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کے سابقہ ریکارڈ کو پیش نظڑ رکھتے ہوئے کام کیا جانا چاہئے اور اسے یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوجائے اور دوسری جماعتوں کو کچلتے ہوئے خود آگے بڑھنے کا راستہ بناسکے ۔ ریاست اور ریاست کے عوام کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تقسیم پسندانہ طاقتوں کو ان کے عزائم میں کامیاب ہونے سے بہر صورت روکا جائے ۔