تلنگانہ میں لاک ڈاون

   

روح مٹی سے یا مٹی روح سے رنگ ہے
دونوں کے بیچ شائد سکون و امن کی جنگ ہے
تلنگانہ میں لاک ڈاون
تلنگانہ میں ایک بار پھر لاک ڈاون نافذ کردیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کرتے ہوئے ریاست میںلاک ڈاون کا اعلان کیا ہے حالانکہ تین دن قبل ہی خود چیف منسٹر نے ریاست میں کسی طرح کا لاک ڈاون لاگو نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ تاہم عدالت سے پڑنے والے دباو کی وجہ سے چیف منسٹر نے لاک ڈاون کا اعلان کردیا ۔ اس بار حالانکہ گذشتہ سال سے زیادہ شدت سے کورونا پھیل رہا ہے ۔ لوگ پہلے سے زیادہ تعداد میں اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ دواخانوں میں انتہائی ابتر صورتحال ہے اس کے باوجود ریاستی حکومت لاک ڈاون کے حق میں نہیں تھی ۔ رات کا کرفیو بھی عدالت کے دباو کی وجہ سے لگایا گیا تھا ۔ اب جبکہ مکمل لاک ڈاون کا اعلان کردیا گیا ہے تو غریب عوام کیلئے کسی طرح کی مدد کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی راحت پہونچانے پر کوئی توجہ دی گئی ہے ۔ عوام مکمل لاک ڈاون کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہونگے ۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور یومیہ روزی روٹی کمانے والے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ ہے جو مکمل لاک ڈاون کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوجائیگا ۔ حکومت کی جانب سے بارہا یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ریاست میں صورتحال لاک ڈاون لگانے کی متقاضی نہیں ہے ۔ ریاست صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ کسی طرح کا کوئی لاک ڈاون لاگو نہیں کیا جائیگا ۔ حکومت کے ان اعلان کے بعد عوام میں ایک طرح سے اطمینان پیدا ہوگیا تھا ۔ یومیہ اجرت والے افراد نے بھی کسی طرح کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا اور حکومت کے اعلان پر مطمئن تھے تاہم آج اچانک کابینہ کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے لاک ڈاون نافذ کرنے کا فیصلہ کردیا گیا جس کے نتیجہ میں عوام کو شدید مشکلات پیش آئیں گی ۔ گذشتہ سال لاک ڈاون کے ساتھ حکومت نے عوام کو کچھ حد تک مدد کا اعلان کیا تھا لیکن اس بار کسی طرح کی مدد کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ نہ مرکزی حکومت نے کچھ کیا ہے اور نہ ریاستی حکومت نے ۔ صرف لاک ڈاون کا اعلان کرتے ہوئے عوام کو گھروں میں بند رہنے کو کہہ دیا گیا ہے ۔
ریاست میں جو صورتحال ہے وہ لاک ڈاون کی متقاضی ہو یا نہ ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دواخانوں کی صورتحال کو بہتر بناتی ۔ ریاست بھر کے دواخانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔ لوگ آکسیجن اور ادویات کی قلت کی وجہ سے مسلسل زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی دواخانہ میں آکسیجن کی کمی کے نتیجہ میں لوگ مر رہے ہیں۔ کورونا علاج میں معاون سمجھا جانے والا انجکشن بلیک مارکٹ میں فروخت ہو رہا ہے ۔ ہزاروں روپئے زائد قیمت وصول کی جا رہی ہے ۔آکسیجن سلینڈر کا حصول عوام کیلئے انتہائی مشکل ہوگیا ہے ۔ لوگ ایک ایک سلینڈر کیلئے کئی کئی گھنٹے کئی کئی علاقوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت ان پہلووں پر توجہ کرنے کی بجائے راست لاک ڈاون کا اعلان کرچکی ہے ۔ دواخانوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوئی خاص اقدامات کئے گئے ۔ طبی ضروریات کی تکمیل حکومت کا فریضہ ہے لیکن اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی ۔ آکسیجن کے حصول کیلئے ابتداء میں کچھ علامتی اقدامات اور کارروائیاں ہوئی ہیں لیکن یہ عوامی ضروریات کی تکمیل کیلئے کافی نہیں ہوئیں۔ جو انجکشن اور دوسری ضروریات ہیں وہ بھی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔ ادویات کی بلیک مارکٹنگ ہو رہی ہے ۔ حکومت مریضوں کو ادویات تک فراہم کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ حکومت کو ان سہولیات کی فراہمی اور بنیادی طبی ضروریات کی تکمیل پر توجہ کرنے اور انہیں یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک عوام کی مدد کرنے کا سوال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اس تعلق سے بالکل ہی بے فکر ہوگئی ہے ۔ عوام کی مدد کرنے سے بچنے کیلئے ہی مرکزی حکومت نے اپنے طور پر ملک گیر لاک ڈاون لگانے سے گریز کیا ہے ۔ اسی طرح ریاستی حکومت بھی صرف لاک ڈاون پر ہی اکتفاء کرچکی ہے جبکہ سفید راشن کارڈ رکھنے والوں کو اقل ترین امداد فراہم کرنے کی ضرورت تھی ۔ راشن شاپس سے چاول اور کچھ نقدی عوام کو فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ لاک ڈاون کے دوران غریب عوام بھی دو وقت کی روٹی کھاسکیں۔ حکومت صرف لاک ڈاون لگاتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ عوام کا پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کے اقدامات پر بھی چندرشیکھر راو اور ان کی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔