تلنگانہ کی سیاست میں گرمی

   

برق نے گرکے نشیمن پہ کرم فرمایا
ورنہ ممکن نہ تھا گلشن میں اُجالا ہونا

ریاست تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوئے ابھی کچھ ہی ہفتے ہوئے ہیں تاہم لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ریاست کی سیاست میں سرگرمی پیدا ہوگئی ہے ۔ تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر انتخابی تیاریوں میںمصروف ہوگئی ہیں۔ بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں اپنے ناقص مظاہرہ کو دیکھتے ہوئے ضلعی صدور اور کچھ دوسری ونگس کے سربراہان کو تبدیل کردیا ہے ۔ وہ لوک سبھا انتخابات میں بہتر مظاہرہ کی تیاری کر رہی ہے ۔ اسی طرح برسر اقتدار کانگریس کی جانب سے لوک سبھا انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ عوام کو پارٹی سے مزید قریب کرنے کے اقدامات میں تیزی پیدا کردی گئی ہے ۔ پرجا پالنا اسکیم کی درخواستوں کے ساتھ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اسی طرح سیاسی اعتبار سے بھی پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کئی در پردہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ سماج میں کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب بھارت راشٹرا سمیتی کی جانب سے بھی اسمبلی انتخابات میں شکست کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے لوک سبھا میں یہ غلطیاں نہ دہرانے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ عوام کے موڈ کا پتہ چلانے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیںاور پارٹی قائدین کی رائے حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کردی گئی ہے ۔ عوام اور پارٹی قائدین کی رائے کے مطابق انتخابی حکمت عملی تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس معاملے میں پارٹی کے ورکنگ صدر کے ٹی راما راؤ سرگرم ہیں۔ سابق چیف منسٹر و بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ ابھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے موقف میں نہیں ہیں اور کولہے میں فریکچر کی وجہ سے وہ زیر علاج ہیں۔ بی آر ایس کے حلقوں کو امید ہے کہ کے سی آر لوک سبھا انتخابات سے قبل تک پوری طرح صحتیاب ہوجائیں گے اور عوام میں پہونچ کر مہم چلائیں گے ۔ یہ اطلاعات بھی سرگرمی سے پھیل رہی ہیں کہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی آر ایس اور بی جے پی کے مابین مفاہمت ہوسکتی ہے تاہم دونوں ہی جماعتوں نے ابھی ایسی اطلاعات کی اب تک تو تردید ہی کی ہے ۔ دونوں نے مستقبل میں بھی ایسے امکانات کو مسترد کردیا ہے ۔
گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو چار پارلیمانی حلقوں سے اور کانگریس کو تین پارلیمانی حلقوں سے کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ مجلس کو ایک حلقہ پر جیت ملی تھی ۔ مابقی حلقوں سے بی آر ایس نے اپنی کامیابی درج کروائی تھی ۔ کانگریس پارٹی آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپنے حق میںرائے عامہ ہموار کرنے کیلئے سرگرم ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ ریاست میں کم از کم 10 تا 12 نشستوں پر اسے کامیابی حاصل ہوجائے ۔ جنوبی ہند سے کانگریس کو خاصی امیدیں وابستہ ہیں اور ان میں تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ ایسے میں کانگریس اور خاص طور پر چیف منسٹر ریونت ریڈی لوک سبھا انتخابات کیلئے کیا کچھ حکمت عملی بناتے ہیں یہ دیکھنا اہمیت کا حامل ہوگا ۔ بی آر ایس کیلئے بھی عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے اپنی اسمبلی انتخابات کی شکست کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا پارٹی اندازہ کر رہی ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے ماحول سے لوک سبھا انتخابات کا ماحول کافی مختلف ہوگا ۔ تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار میں لوک سبھا کے انتخابات پہلی بار منعقد ہونے جا رہے ہیں ایسے میں حکومت کی کارکردگی اور خاص طور پر چیف منسٹر ریونت ریڈی کی امیج زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے در پردہ تیاریوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر تنقیدیں اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی سرگرمیاں بھی بہت تیز ہوگئی ہیں ۔ آئندہ وقتوں میں ان میں مزید اضافہ کے بھی امکانات ہیں۔ جو صورتحال لوک سبھا انتخابات تک پیدا ہوگی وہ دلچسپ ہوسکتی ہے اور ایسے میں عوام کا فیصلہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔
کانگریس حکومت ریاستی انتظامیہ پر اپنی گرفت مضبوط بناتے ہوئے عوام میں پورے استحکام سے جانے کے منصوبے رکھتی ہے ۔ جس طرح سے کانگریس قائدین نے ریاست میں اقتدار ملنے کے بعد آپسی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے پارٹی کے استحکام کیلئے کام کاج کا آغاز کیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے ۔کانگریس قائدین کے آپسی اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے عوام سے رجوع ہوا جاتا ہے تو اس کے نتائج پر بھی اثرات یقینی طور پر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ جہاں تک بی آر ایس اور بی جے پی کی حکمت عملی کاسوال ہے تو آئندہ چند ہفتوں میں یہ واضح ہوجائے گی اور پھر اصل فیصلے کا دار و مدار عوام کے موڈ پر ہوگا ۔
ایک قوم ۔ ایک الیکشن ‘ اتفاق رائے ضروری
ایک قوم ایک الیکشن کی تجویز پر ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی جانب سے تیاریاں شروع کرچکی ہے اور انہیں بتدریج آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ یہ تجویز کس حد تک قابل عمل ہے اس پر کوئی وضاحت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس تجویز کو پوری طرح سے منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ سارے مسودے سے اپوزیشن جماعتوں کو بھی واقف نہیں کروایا گیا ہے ۔ صرف حکومت کی تجویز پر الیکشن کمیشن کے اتفاق سے کام شروع کردیا گیا ہے اور اس پر قومی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ مرکزی حکومت یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے اور اس کو سارے ملک پر مسلط کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں سے اس سلسلہ میں مذاکرات کو یقینی بنائے ۔ ہر جماعت کی رائے کی سماعت کی جائے ۔ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے ۔ ملک کے عوام کی رائے جاننے کوشش کی جائے اور جب تک سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہو جائے اس وقت تک کوئی باضابطہ پیشرفت نہ کی جائے ۔ سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری عمل کی فریق ہیں اور حصہ دار ہیں۔ انتخابات کے تعلق سے کچھ بھی فیصلہ ہوتا ہے تو سیاسی جماعتیں اس کی حصہ دار ہونی چاہئیں۔ من مانی انداز میں فیصلہ کرتے ہوئے اس کو سارے ملک پر مسلط کرنے سے حکومت کو گریز کرنا چاہئے ۔